“مزار اقبال کی تیاری”

تحریر: وسیم نظامی…شیخوپورہ

اقبال کے قریب ترین دوست چوہدری محمد سرور کی سربراہی میں مزار اقبال کی بناوٹ کے حوالے سے ایک فارن کمیٹی بنائی گئی اور فائنل یہ ہوا کہ آپکی آخری آرام گاہ کیلئے جگہ وہی منتخب ہو گی جسکا انہوں نے اپنے ایک فارسی شعر میں اشارہ بھی کیا تھا یعنی بادشاہی مسجد کے سائے تلے دفن کیا جائے ، اور اس کیلئے پنجاب حکومت کی اجازت درکار تھی ۔ اُس وقت کے چیف منسٹر سر سکندر حیات جو جناح سکندر پیکٹ کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیک کے سالانہ اجلاس کیلئے کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ سر سکندر حیات کو تار بھیجی گئی لیکن جناب نے اُس جگہ کے انتخاب کو مسترد کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ آپکو نیلا گمبد کے سامنے جو خالی پلاٹ ہے وہاں دفن کیا جائے۔ تیسری تجویز یہ تھی کہ آپکو اسلامیہ کالج کی گراونڈ میں دفن کیا جائے۔
لیکن اقبال کے رفقا کی کمیٹی اس بات پہ اڑی رہی کہ آپکا مقام دفن وہی ہو گا جس طرف آپ کا اشارہ تھا یعنی شاہی مسجد کے برابر والا۔ اور پھر وہ کمیٹی وفد لے کر اس وقت کے گورنر سر ہینری کریگ کے پاس گئے۔ ہینری کریگ نے دہلی کے وائسرائے سے اجازت دلوائی اور پھرسہہ پہر 4 بجے تک وہ جگہ فائنل ہوئی اور آپ کے گھر سے اقبال کا جنازہ اٹھا اور اسلامیہ کالج کے وسیع میدان کی طرف آپکا جنازہ روانہ ہوا۔ آپ کے جنازے کی چارپائی پر لمبے لمبے بانس لگائے گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپکے جنازے کو کندہ دے سکیں۔
اصل میں آپکا جنازہ دو بار پڑھایا گیا پہلی بار اسلامیہ کالج کی گراونڈ میں پڑھایا گیا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ تقریبا 50 ہزار کے قریب لوگ ابھی تک بادشاہی مسجد میں جنازے کے انتظار میں کھڑے ہیں ، تو اس طرح دوسرا جنازہ شاہی مسجد میں اُس وقت کے شاہی خطیب نے پڑھایا جہاں 50 سے 60 ہزار کے قریب لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ اور اسطرح 21 اپریل 1938 کو تقریبا رات کو 10:45 پر آپ کو شاہی مسجد کے سائے تلے سپر د خاک کیا گیا۔

اور تقریبا 8 سال تک یعنی 1946 تک وہاں پر صرف ایک کچی قبر تھی جس پر ایک تعویز لٹکا ہوا تھا۔ اور جو مزار آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ حکومت افغانستان نے اپنے اٹیلین ماہرین کو نامزد کیا کہ وہ مزار اقبال کا خاکہ بنائیں۔ انہوں نے جو خاکہ بنایا وہ کیتھولک طرز تعمیر پر تھا جس میں وہ چاہتے تھے کہ مرحوم کا مجسمہ آپکی قبر کے اوپر کندہ ہو جس میں کراس کا نشان ظاہر ہوتا ہو جس کو مسترد کر دیا گیا۔

اس کے بعد حیدر آباد دکن کے نواب زین یار جنگ نے ایک خاکہ تجویز کیا لیکن اُس میں نفاست ایک نسوانی حد تک تھی کہ جیسے ایک سنہری پنجرے میں بلبل بند ہو لہذا وہ خاکہ بھی مسترد کر دیا گیا۔

پھر چوہدری محمد حسین نے نواب صاحب کو لاہور دعوت دی اور نواب صاحب کو شاہی مسجد کی سیڑیوں پہ کھڑا کر کہ کہا دیکھیے ایک طرف مسلمانوں کی دنیاوی طاقت کا مظہر شاہی قلعہ ہے دو سری طرف مسلمانوں کی اسلامی طاقت کا مظہر یہ شاہی مسجد۔ آپ اپنے نقشے میں ایک ایسی ہی منظر کشی کریں کیونکہ اقبال کے اندر بھی یہ دو خوبیاں پائی جاتی تھیں ۔ کہ ایک طرف سادگی اور دوسری طرف مضبوطی۔

اس مزار کا لال پتھر انڈیا کے شہر دھول پور سے منگوایا گیا جسکو دہلی اور آگرہ میں تراشا گیا۔ اور اس مزار کے اندر لگا ہوا سنگ مر مر کا پتھر افغانستان سے منگوایا گیا۔

“یہ تو ذکر تھا اُس نشان کا جہاں اقبال کا جسم دفن کیا گیالیکن اُسکی روح کی بے تابی، بے چینی، بے قراری آج بھی اقبال کے رازدانوں کے سینوں میں موجود ہے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *