فیشن سے فحاشی تک

(عارف رمضان جتوئی)

آرٹس کونسل آف پاکستان کے اطراف میں ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی لائن میں لگتی جارہی تھی۔ ہر گاڑی میں سے کوئی نہ کوئی اہم شخصیت اترتی اور نہایت ہی نفیس سی چال چلتے ہوئے مرکزی دروازے سے آرٹس کونسل میں داخل ہوجاتی۔ اترنے والوں میں ایسے لڑکے اور لڑکیاں بھی موجود تھے جن کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔ بہت عمدہ ملبوسات، منفرد ہیئر اسٹائل، چم چماتے بلیک چشموں کے عقب میں نشیلے نین، ہلکی ہلکی لال اور گلابی رنگوں کی لپ اسٹیک سے مزین ہونٹ اور اترنے کے ساتھ ہی ان ہونٹوں پر جنبش اور پھر کھلکھلاہٹ نے ماحول کو سحر انگیز بنا رکھا تھا۔ ہر گاڑی کے کھلتے دروازے کے ساتھ ٹھنڈی ہوا میں خوشبوﺅں کی ملاوٹ سے بھرپور جھونکے وہاں پر موجود افراد کو خیرا کیے دیتے تھے۔ گاڑیوں سے اترنے والوں کو دیکھنے کے لیے گاڑیوں پر چلنے والے بھی کچھ پل کو رفتار ہلکی کرتے اور پھر نہایت احتیاط سے دو طرفہ نظریں دوڑاتے ہوئے نکل جاتے تھے۔
کونسل کے مرکزی دروازے پر ایک بڑی سے گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔ انتظامیہ کی جانب سے موجود ایک لڑکا ان کی جانب بڑھا مگر اس سے قبل گارڈ نے برق رفتاری سے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا گاڑی سے اترے۔ چال ڈھال اور وضع قطع سے وہ انتہائی درجے کے امیر ترین خاندان سے لگ رہے تھے۔ ”کیا ہی عجب حال ہے، بڑی بڑی گاڑیوں پر چھوٹی چھوٹی عمر کی بچیوں کے اتنے کم کپڑے“۔ وہاں پر کھڑے ایک شخص نے خود ہی خود میں تبصرہ کیا اور پھر انہیں دیکھنے لگا۔
”کم کپڑے والے“ لفظ پر چونکتے ہوئے میں ان کی طرف دیکھنے لگا۔ ان کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے جب نگاہیں مڑیں تو کم کپڑوں والی بات ٹھیک سے سمجھ آگئی۔ کچھ پل کو چور نظروں سے خود ہی محسوس کیا اور پھر شرم سے نظریں جھکا لیں۔ ہوں گے سمندر پار کے ، یا کم از کم پڑوس ملک کے۔ یہ سوچ کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور آگے بڑھنے کے قدم ڈال دیے۔ ایک قدم اور اٹھایا کہ متعلقہ گاڑی

کا ڈرائیور بھی عین میرے سامنے آگیا ۔ شکل و صورت سے سادھا سا آدمی لگتا تھا۔ سامنے پا کر میں نے ان سے پوچھ ہی ڈالا۔ ”آپ کے صاحب لوگ کہاں سے ہیں“۔ پاکستان کے ہی ہیں۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر پوچھا کیوں خیریت۔
یہ کہانی ایک دن کی نہیں ہے۔ روزانہ ہی اس طرح کی فیملیاں مجھے اسی آرٹس کونسل کے گیٹ میں داخل ہوتی اور پھر رات گئے تک وہاں سے نکلتی نظر آتی ہیں۔ افسوس کیا کرنا اب تو یہ فیشن بن گیا ہے۔ اسی مقام پر ایسے لڑکے بھی دیکھے کہ جو وہ کپڑے پہن کر وارد ہوتے ہیں جنہیں ایک معصوم آدمی اپنے گھر اور اپنی بہنوں کے سامنے پہننے سے بھی آدھا شرماتا رہے۔ مگر کچھ کہو تو جواب ملے گا فیشن ہے۔ شاپنگ مال اور اہم مقامات پر لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ ایسی حالت میں گھومتے پھریں کہ وہیں معصوم آدمی جب وہاں پر شرماتے ہوئے کہے بھی دے کہ دیکھیں یہ ٹھیک نہیں لگتا تو فوری جواب ملے گا، ”دیٹ از فیشن برو“۔
فحاشی اور فیشن میں کیا فرق ہے ؟ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یقینا فحاشی اور فیشن میں بھی فرق ہے۔ عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ فیشن کا تعلق کسی مہذب یا بہت زیادہ اسلامی سوچ رکھنے والے طبقے سے نہیں ہے۔ یہ تاثر بالکل بے جا اور غلط ہے۔ فیشن کوئی بھی کبھی کہیں بھی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ فیشن کا مطلب ہے خود کو خوب سے خوب تر بنا کر رکھنا۔ فیشن میں نت نئے اور خوبصورت ملبوسات،سولہ سنگھار ، ڈیزائنز یا کوئی بھی دوسری چیز پر باقاعدگی سے توجہ دینا شامل ہے۔ خوبصورت بننا کسی کے لیے بھی ممانعت نہیں رکھتا۔ وہ چاہے پردوں میں ہوں یا پردوں کے باہر ہوں۔ مگر فیشن کرنے والوں کے لیے جو لوازمات ہیں انہیں اگر ملحوظ خاطر رکھا جائے تو یقینا فیشن کرنے کا لطف دو بالا ہوجائے۔
درج بالا واقعات و حالات میں دو باتیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں۔ کیا ہم دوسروں کی زندگی میں مداخلت (انٹرفیئر) ہونے کی ضرورت ہے؟ یہ دیکھتے رہیں کہ کون کیا کررہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ دوسری بات یہ کہ آیا وطن عزیز میں فحاشی اور عریانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب یہ سب کچھ کھلے عام ہورہا ہے یا اس پر کوئی کنٹرول آیا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسروںکی زندگی میں خواہ مخواہ الجھنے اور انہیں پریشان کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ بعض اوقات یہ سوال اس وقت بھی سامنے آتا ہے کہ جب ہم کسی برائی اور بدی پر تنقید کرتے ہیں کہ اس کی اصلاح ممکن ہو تو پاس والے الجھ پڑتے ہیں کہ ہر کسی کی اپنی زندگی ہے وہ جیسے چاہیے جیں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہر کسی کی اپنی زندگی ہے۔ مگر یہاں پر بات صرف اور صرف ان مقامات کی ہورہی ہے کہ جنہیں پبلک پلیس کہا جاتا ہے۔ ایسی تفریح گاہیں، روڈ، شاپنگ سینٹرز وغیرہ کہ جہاں پر ایسی کسی بھی حرکت سے دوسرے بری طرح پریشان ہوں۔ دوسروں کی زندگی میں درحقیقت وہ لوگ ہی انٹرفئیر ہورہے ہوتے ہیں جو ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔
پبلک پلیس پر ایسی حرکات و سکنات کرنا کیا ہوتی ہیں؟ اس کے لیے عالمی منشور کو مد نظر رکھا جائے توکچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر 1948 ءکو ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ منظور کر کے اس کا اعلان عام کیا۔ منشور کے دفعہ 29 پر کہا گیا ہے کہ ”ہر شخص پر معاشرے کے حق ہیں کیونکہ معاشرے میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اور پوری نشوونما ممکن ہے۔ اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہوگا جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کرانے اور ان کا احترام کرانے کی غرض سے یا جمہوری نظام میں اخلاق، امن عامّہ اور عام فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے لیے قانون کی طرف سے عائد کیے گئے ہیں“۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ دنیا کا ہر شہری معاشرے کے حقوق اور معاشرتی اقدار کا پابند ہے۔ ہر ملک ، شہر اور علاقے کا معاشرہ اور ثقافت اس کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کا معاشرہ ہے تو یہاں پر یورپ کے معاشرے کے حقوق پر عمل کیا جانے لگے۔
دوسری بات تھی کیا اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں وہ فحاشی و عریانی اس قدر بڑھ رہی ہے کہ اب ہمیں جگہ جگہ یہ سب کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ تو ایسا ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ وقت کے بیتنے کے ساتھ ساتھ جہاں افراد(پاپولیشن) میں اضافہ ہورہا ہے وہیں ہم عہد نبوت سے بھی دور ہورہے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ”تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عہد نبوت کے قریب ترین ہیں۔ اس طرح کم بہتر وہ ہیں جو دور ہیں اور دور ہوتے جارہے ہیں اسی لحاظ سے کم بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتا لمحہ ہمیں ہماری اسلامی سوچ اور اقدار سے دور ہی کرتا جارہا ہے“۔” جو شخص لوگوں میں رہے اور پھر ان کی تکالیف کو برداشت کرے اس شخص سے بہتر ہے جو نہ تو لوگوں میں رہے اور نہ ہی اسے تکلیفیں ملیں“۔

کسی بھی معاشرے میں پائی جانے والی سوچ کو بدلنے کے لیے سب سے اہم ہوتا ہے نیت کا مخلص ہونا۔ اسی لیے فحاشی اور عریانی کو نیت کے فطور سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ لاکھ پردوں میں ڈھلی عفت و عصمت کی پاسبان کے دل میں ہی فطور ہوگا تو اس کے یہ سات پردے کسی بھی کام کے نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اسلامی چہرے سے مزین ، سر پر بڑے بڑے عمامے لگائے شخص کے دل میں کھوٹ ہوگی تووہ شخص بھی اسی طرح فحش ہوگا اور اس کی سوچ لتھڑی ہوئی ہی ہوگی جیسے کم کپڑے والوں کی ہوتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہوگا کہ کوئی پس پردہ ہوگا اور کوئی سرعام ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی سوچ کو بدلا جائے۔ ہمیشہ مثبت اور آلودگی سے پاک سوچ انسان کی عفت و عصمت کا تحفظ کر سکتی ہے۔ سوچ کے ساتھ ساتھ فحاشی کے اسباب کا سدباب بھی بہت ضروری ہے۔ اسباب وہ بنیادی جڑ ہوتی ہے جو معاشرے کی برائی کا سبب بنتی ہے ۔ جسے ختم کر کے برائی سے بچا جاسکتا ہے۔
نئے زمانے اور زمانہ بدلو کے سلوگن سے معاشرے کو پستیوں میں ڈالنے کی مہم پر بہت ہی سنجیدگی سے عملد آمد شروع کردیا گیا ہے۔ جس کے لیے سب سے زیادہ میڈیا کا سہارا لیا جارہا ہے۔ نت نئے انداز میں اس سلوگن کو عام کیا جارہا ہے اور جہاں تک ممکن ہے مختلف شوبز کی شخصیات کو بھی اس پر عملی کردار ادا کرنے کے لیے کاﺅنٹریکٹ دے دیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بٹھایا جارہا ہے کہ شاید وہ جس زمانے میں جی رہے ہیں وہ پتھر کے دور کا زمانہ ہے۔ اب اس زمانے سے باہر آنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے نیا زمانہ موجود ہے۔ جس میں لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین سے آزاد ہوکر مخلوط محافل سجائیں۔ اچھا یا غیر اچھا کھائیں یا پییں اور اپنی مرضی کے اوٹ پٹانگ فیشن کر کے نکلیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ کیا ہم واقعی جدید نہیں ہوئے یا فیشن کو ہم نہیں جان پائے۔ کیا ایسا ہے کہ جو بیرون سے ہمیں فیشن دیا جارہا ہے وہی فیشن ہے جسے ہمارے شوبز سے لے کر تاجر تک سب ہی اپنی اپنی منڈی میں لاکر خوب چرچا کرتے ہیں۔ عوام الناس کو عریاں اور عجیب و غریب صورتحال میں ریمپ پر کٹ واک کر کے بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ اصلی زمانہ ہے۔ گھر سے نکلو تو ہر قسم کی پابندی سے عاری آدھے ادھورے جسموں والی خواتین پر موجود کچھ کپڑوں کے نمائشی سائن بورڈ دیکھائی دیتے ہیں جو ہر آنے جانے والے غریب امیر بلا امتیاز سب کو ہی بیرونی جدت پسندی اور فیشن کی تشہیر کرتے نظر آتے ہیں۔
کسی نے یہ نہیں سوچا کہ فیشن اور جدت کی بھی کوئی حد تو ہوگی۔ جدت اور فیشن کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ عریانی کو فروغ دیا جائے۔ کم کپڑوں کے زیب تن کر کے دوسروں کی حوس کا نشانہ بننے کے لیے خود کو پیش کیا جائے۔ سب چیزیں اپنے اوقات اور اپنے مدار میں بہت اچھی لگتی ہیں۔ اس سے قبل کے کوئی آپ پر شب خون مارے آپ خود کو محفوظ کریں۔ اپنے جسم کو نمائش کے لیے پیش کرنے کے بجائے اسے پردوں میں ڈھکیں۔ اس لیے نہیں کہ آپ کی سوچ منفی ہے بلکہ اس لیے کہ آپ کی وجہ سے کسی اور کی سوچ منفی ہورہی ہے اور وہ آپ کو تکلیف پہنچا سکتی ہے۔

آپ فیشن کریں، ایک سے بڑھ کر ایک فیشن کریں اور کروائیں۔ مگر آپ اسے اپنی حد تک رکھیں۔ بیوی اپنے خاوند کے لیے کرے۔ بیٹیاں اپنی بہنوں اور خواتین کے لیے کریں اور خود کو دوسروں کی پہنچ سے دور رکھتے ہوئے کریں۔ کون منع کرتا ہے اور کون اعتراض کرتا ہے۔ ہاں اگر آپ خود کو خوب بنا سنوار کر بھرپور فیشن کر کے نکلیں تو یاد رکھیں آپ کو تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے۔ کتنے ہی تیزاب گردی کے واقعات، قتل کے واقعات، اغوا کے واقعات صرف اور صرف اس لیے پیش آتے ہیں کہ لڑکی گھر سے خود کو ڈھک کر نہیں نکلی۔ راستے میں کسی اوباش ، بدمعاش کی نظر پڑ گئی۔ وہ ایک نظر میں فدا ہوا بیٹھا اور پھر انکار پر تین راستے ہی تھے۔ یا تو وہ چہرہ جسے وہ پسند کرتا ہے کسی اور کا کیوں ہو لہذا اسے ہی مسمار کردیا جائے۔ یا پھر وہ وجود جو اس کا نہیں ہوسکتا وہ کسی اور کا کیوں اسے ختم کردیا جائے۔ یا وہ وہ پسند ہی کیا جسے وہ حاصل نہ کرسکے تو اسے اٹھا لیا جائے۔ کبھی سوچھا کسی نے کہ یہ سب کیوں ہوتا ہے ۔ کرنے والوں کے جذبات کیا ہوتے ہیں، یہیں کہ وہ اپنے انجام کو تو محسوس کر ہی چکے ہوتے ہیں مگر وہ کسی اور کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تاریک کر جاتے ہیں اور جس کی زندگی تاریکی ہوتی ہے اس کے پس پردہ اپنی ہی اس کی غلطی ہوتی ہے۔
بات ہورہی تھی فیشن کی ،اصلی فیشن تو یہ ہے کہ گرمیوں کے لحاظ سے گرمیوں کے کپڑے اور سردیوں کے لحاظ سے سردیوں کے کپڑے پہننے چاہیے۔ جیسا ماحول ہو ویسا ڈریس اور فیشن ہونا چاہئیں۔ اس لیے آپ کے لیے پبلک پلیس پر ایسے کپڑے ہرگز سوٹ ایبل نہیں۔ یہ کپڑے صرف اور صرف آپ کے گھر پر ہی آپ کو سوٹ ایبل ہیں ورنہ یاد رکھیں یہ فیشن کے الٹ ہوگا کہ سردیوں میں گرمیوں کے کپڑے جیسا ہوگا۔ ہر قسم کا فیشن کیا جائے مگر اس کے متعلقہ مقام کے اور جگہ کے اعتبار سے ۔ اگر حالات و واقعات میں تضاد آیا تو پھر فیشن فحاشی بھی بن سکتا ہے اور وہ فحاشی آپ کے لیے تکلیف دہ بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے فحاشی سے بچ کر خود کو بچائیں۔
arif.jatoi1990@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *