تحریر و تبصرہ : نبیلہ خان ۔
کتاب کا نام :- جلیباں
شاعر :۔ رحمت اللہ عامر
آج آپ سب کی خدمت میں جس کتاب پرتبصرہ پیش کرنے جا رہی ہوں وہ ہے رحمت اللہ عامر صاحب کی مزاحیہ شاعری پر مشتمل کتاب جلیبیاں ۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے اندر جلیبیوں جیسی مٹھاس رکھتی ہو گی ، جی ہاں بالکل ، ایسی مٹھاس جو بیک وقت منہ کو اور مزاج کو میٹھا نھی کرتی ہے اور بے تحاشا مٹھاس کے اندر چھپی کڑواہٹ کو بھی واضح کرتی ہے ، رحمت اللہ عامر صاحب ڈیرہ اسماعیل خان کے نامور شاعر ، جو مزاحیہ شاعر کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں ، لیکن درحقیقت وہ ایک نہایت سمجھدار اور زمانہ شناس انسان ہیں ، زمانے کی دکھتی رگوں پر بڑی مضبوط گرفت رکھتے ہیں ، اپنی شاعری کے ذریعے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کی نشاندہی ان جیسے ذی عقل اور سنجیدہ مزاج کے انسان ہی کر سکتے ہیں ۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایڈیٹوریل میں ، جلیبیاں کی تقریب ِ رونمائی میں شمولیت کا موقع ملنا اور جلیبیاں پر پڑھے جانے والے مقالات نے مجھے اس وقت یہ سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ آیا میں بھی کبھی کسی کتاب پر تبصرہ کر ہائوں گی ، وہاں شامل بڑی بڑی ادبی شخصیات کو دیکھنا بھی میرے لئے بہت ہی اچھا اور خوشگوار تجربہ ثابت ہوا تھا ، کتابوں اور کہانیوں میں پڑھی ہوئی باتوں کا جب ہم حقیقت میں حصہ بنتے ہیں تو ایک خواب کی سی کیفیت لگتی ہے اور مجھ جیسی خوابوں میں رہنے والی خاتون کے لئے تو وہاں گزرا ہر پل ایک خواب ہی رہا ، اور میرے ادبی سفر کا نقطہ آغاز بھی ۔
جلیبیاں مجھے اپنی رونمائی کے کافی عرصہ بعد موصول ہوئی ، اور یہ میرے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ٹھہرا کہ رحمت اللہ عامر صاحب جن کو میں بابا کہتی ہوں نے مجھے اپنی بیٹی مانا اور سگی بیٹی جیسا مان اور پیار دیا ، بابا جی سے بالمشافہ ملاقات صرف دور سے دیکھنے کی حد تک ہی رہی ، مگر فیس بک ایک ایسا ذریعہ ثابت ہوئی جس بے دوریوں کو سمیٹ کر قربتوں میں بدلا ، بابا کی شاعری کی سب سے اہم اور خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ جو بات کہنا اور سمجھانا چاہتے ہیں وہ پڑھنے والا بہت آسانی سے سمجھ جاتا ہے ، کتاب میں اپنی زوجہ محترمہ کو انہوں نے خاص موضوع بنایا ، مگر معاشرتی پہلووں کی بھی بہت خوبصورت عکاسی کی ،
ـ۔۔ چاند کا رولا میں وہ کہتے ہیں
ع ۔۔۔ ہمارے ملک میں شام و سحر ہے چاند کا رولا
گو عیدیں ایک جیسی ہیں مگر ہے چاند کا رولا
اسی طرح یوم آزادی میں بھی ان کا لہجہ لہو رنگ ہوتا نظر آتا ہے
ع ۔۔۔۔۔ لہو اجداد کا ضائع ہوا ہے
سفر افراد کا ضائع ہوا ہے
اس پوری نظم میں یوم آزادی کا جو منظر پیش کیا ہے وہ درد ہر ذی شعور کو اہنی جانب کھینچتا ہے
دکھاوے کی ہیں تقریبیں یہ جھندے
یہ دھن برباد کا ضائع ہوا ہے
ان کی شاعری شوگر کوٹیڈ گولی کی طرح ہے اوپر سے میٹھی اندر سے کونین کی تلخی لئے ہوئے ہے جلیبیاں نام تو اپنے اندر بے پناہ مٹھاس رکھتا ہے مگر دراصل معاشرے کے ان پہلووں کی نشاندہی ہے جس نے ہمارے ملک اور معاشرے کے اندر ناسور کی طرح جڑیں پھیلا رکھی ہیں ۔۔
ان کے مشہور قطعات ۔۔
1 ۔ جہیز
2۔۔ چوری ڈاکے
3۔۔ زرد صحافت
4۔۔ حج
5۔۔ بورڈ والوں سے سوال
6۔۔۔ گھوڑوں کے ماڈل
7۔۔۔ بلا ناغہ
جیسے قطعات ان کی سیاسی اور معاشرتی بصیرت کے واضح ثبوت ہیں اس کتاب کی ایک ایک سطر اور ایک ایک شعر اپنے اندر معنی و مطالب کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے ۔ غرض رحمت اللہ عامر صاحب کی شاعری عوام کی شاعری ہے عوام کے دل کی آواز ، اللہ ان کے قلم سے نکلے ہر لفظ کو مشعلِ راہ بنائے ، آمین ۔