غزل
در پہ بن کے غلام آیا ھوں
عرض کرنے سلام آیا ھوں
اپنی مصروفیت کےہاتھوں سے
چھین کر ایک شام آیا ھوں
چپ کی دیوار اب گرا دیجئے
کیجئے کچھ کلام آیا ھوں
عمر کی تشنگی مٹانے کو
لے کے ہاتھوں کاجام آیا ھوں
چند قطرے شرابِ دید انڈیل
لے کے آنکھوں کا جام آیا ھوں
دل میں تنہا مقام چاہتا ہے
دیکھ میں بے مقام آیا ھوں
عاصم تنہا