برف کے ٹکڑے

ہال تماشایوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ہال میں بیٹھے لوگوں کی نظریں پردہ ء سکرین پر جمی تھی ۔سٹیج کے سامنے سے پردے ہٹا دیے گئے ۔ ڈرامے کا آغاز ہوا۔

فسوں خیز ماحول ، ہر طرف اندھیرااور مسمرائزکر دینے والی برستی بارش۔سٹیج کا منظر دیکھنے والوں کے لیے اس قدرمحوکر دینے والا تھا کہ دیکھنے والے باہر کے منظر کو ایک لمحے کے لیے بھول جاتے ۔

یہ سرد موسم کی اندھیری رات کا منظر تھا ۔ بارش چھم چھم برس رہی تھی ، اس بارش کے ساتھ اولے بھی برس رہے تھے ۔شہزادی اوراس کی کنیزدست بستہ ٹیرس پر کھڑی بارش کو دیکھ رہی تھی ۔دھان پان سی شہزادی کا لباس ہلکے سنہرے رنگ کا تھا جبکہ اس کی کنیز گہرا جامنی رنگ پہنے کھڑی تھی ۔ شہزادی کا دل اولے اکٹھے کرنے کو مچل رہا تھا ۔شہزادی کو اولے ہمیشہ سے بہت پسند تھے ۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بھاگ کر بارش میں جاتی، اولے چنتی، ہنستی اور واپس چھت کے نیچے آ جاتی ۔اس طرح اس نیبہت سے اولے اپنے ہاتھوں میں بھر لیے تھے۔

شہزادی نے اپنی ہتھیلی بوڑھی کنیزکے سامنے پھیلاتے ہوئے کہا ۔دیکھوکنیز !کیسے ہیروں کی طرح ہیں یہ برف کے ٹکڑے

ہاں خوبصورت لیکن پگھل جانے والے ۔ پھینک دو انھیں ۔دیکھیں آپ کے کپڑے بھی بھیگ گئے ،آپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی ۔ اندر چلیں۔ بوڑھی کنیزنے فکر مندی سے کہا

کنیزتھوڑی دیررکیں ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے ان اولوں کو دیکھنے لگی ۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے اولے اس کی گرم ہتھیلی میں پگھلنے لگے یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں صرف پانی رہ گیا ۔

پگھل گئے ناں ۔۔ کنیز نے مسکراتے ہوئے کہا



دیکھوکنیز۔۔میری ہتھیلی میں تو ہیرے بھی پگھل جائیں ۔میری ہتھیلی ہی ایسی ہے ۔ وہ کھکھلاکر فخر سے بولی

ہاں ! کہا توآپ نے ٹھیک ہے ۔ لیکن ابھی اندر چلو۔ آپ کو ٹھنڈ نہ لگ جائے ۔کنیز نے کہا ۔ شہزادی نے پانی کو ہاتھ سے جھاڑا ۔اور پلٹ کر کمرے میں چلی آئی ۔

شہزادی ! چلو اب سو جائیں رات بہت بیت گئی ۔کنیزنے کہا اور دونوں بستر پر دراز ہو گئیں ۔چند لمحے ہی گزرے تھے کہ شہزادی چونک کر اٹھ بیٹھی

کنیز۔ کیا تم نے کوئی آہٹ سنی ؟؟؟ شہزادی نے پری کو جنجھوڑتے ہوئے کہا

نہیں شہزادی آپ کا وہم ہے ۔ سو جائیں ۔کنیزنے بے زاری سے کہتے ہوئے آنکھیں موند لی

شہزادی ۔۔۔ ایک واضع پکار نے شہزادی کو اپنی طرف متوجہ کیا

شہزادی ۔ آپ جاگ رہی ہیں ۔۔۔۔آواز بے حد قریب سے ابھری ۔ شہزادی نے آنکھیں پوری طرح کھول دیں ۔ وہم نہیں ہو سکتا تھا ۔ یہ سوچ کر وہ آہستگی سے اٹھی اور پھر سے ٹیرس پر آ گئی ۔

شہزادی ۔۔پھر سے پکارا گیا۔

شہزادی ۔۔۔۔اب آواز کے ساتھ ایک شبہ بھی نظر آنے لگی۔ وہ کوئی سپہ سالار تھا زرہ پوش ، چوڑے شانے ، چمکتی آنکھیں ، روشن چہرہ ۔ وہ اسے گھور کر دیکھنے لگی ۔ اس نے اپنی ہتھیلی شہزادی کے آگے پھیلا دی

شہزادی خاموشی سے کبھی اس کی پیلی ہوئی ہتھیلی کو دیکھتی ،کبھی بے یقینی سے اس کے چہرے کو ۔

آپ کون ہو؟؟؟ ۔۔۔ شہزادی نے حیرانی کے ساتھ کہا

کیا میں آپ کا ہاتھ تھام سکتا ہوں ۔؟؟؟ سوال کے جواب کی بجائے ایک اور سوال پوچھا گیا ۔شہزادی نے حیرانی سے اس کے چہرے کو دیکھا ۔ پھر اپنے ہاتھ کو دیکھا ۔ ایک لمحے کے لیے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا ۔

شہزادی ۔۔۔۔اتنی بے یقین کیوں ہیں ۔ میں یہ ہاتھ چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑوں گا ۔۔ اس کی آواز میں پختہ یقین تھا ۔ شہزادی چپ چاپ کھڑی تھی ۔ اتنی جرات ، اس قدر یقین ۔ شہزادی گنگ تھی ۔



شہزادی اپنا ہاتھ دیکھائے ، مجھ پر یقین رکھئے ۔ سپہ سالار سوالی بنا ابھی تک اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائے کھڑا تھا

لیکن کیوں ؟ شہزادی نے سوال کیا

اپنی زندگی کا ساتھی بنانے کے لیے ۔ ذرہ پوش نے جواب دیا

شہزادی اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ کون ہے ، ؟؟؟کہاں سے آیا ہے ؟؟؟ لیکن وہ کچھ بھی نہیں کہ پائی ۔حیرت اور ماحول کی فسوں خیزی نے اسے کچھ کہنے سے باز رکھا

شہزادی ۔۔۔۔سپہ سالار کی آواز میں نہ جانے کون کون سا جذبہ موجزن تھا ۔اس کا مضبوط ہاتھ ابھی تک شہزادی کے آگے پھیلا ہوا تھا ۔ شہزادیکبھی اس کے ہاتھ اور کبھی اس کی طرف دیکھتی ۔ وہ مسلسل شہزادی کوسوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔شہزادی عجیب سی شش و پنج میں مبتلا تھی ۔سپہ سالار نے مسکرا کر سرکی جنبش سے اشارہ کیا۔

شہزادی نے اپنا نازک سردہاتھ ججھکتے ججھکتے سپہ سالار کی دھکتی ہتھیلی پر رکھا ۔ ٹھنڈک کا احساس کم ہونے لگا ۔ شہزادی کے ہاتھ کی ٹھنڈک سپہ سالار کے رگ و پے میں سرایت کرنے لگی ۔ اور شہزادی اس کے ہاتھ کی گرمی میں پگھلنے لگی ۔سپہ سالار نہ جانے کیا کچھ کہہ رہاتھا ۔ شہزادیچپ چاپ سن رہی تھی ۔ اس کی ساری باتیں شہزادی کے دل میں اتر رہی تھیں ۔ اور سپہ سالارکا د ل اس نازک ہاتھ میں دھڑکنے لگا تھا ۔

شہزادی میں تمھیں اپنے دیس میں لے جاؤں گا ۔ چلو گی میرے ساتھ۔۔۔ ۔شہزادی کا ہاتھ بدستور اپنے ہاتھ میں لیے وہ کہہ رہا تھا ۔ یہ دنسپہ سالار کی زندگی کے لیے ایک عجیب سا دن تھا ۔ برستی بارش ، سرد نازک ہاتھ اس کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا ۔اس کا جی چاہا کہ ابھی شہزادی کو اپنے ساتھ لے جائے اور اس کے ہاتھ کو کبھی اس قدر سرد نہ ہو نے دے ۔

چلو گی میرے ساتھ ؟؟؟؟ ۔۔۔اس نے پھر سے کہا ۔ شہزادی نے اثبات میں سر ہلایا سپہ سالار کا لہجہ اب پگھلنے لگا تھا ۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہا تھا ۔ چند منٹ میں نہ جانے کتنی کتنی ہی صدیا ں بیت گئی ۔۔ محبت ان کے گرد رقص کرنے لگی ۔ وقت تھم گیا ۔ یہاں تک کہ رات قطرہ قطرہ بھیگتی رہی ،شہزادی کی ہتھیلی پگھلتی رہی ۔سپہ سالار کے دل کی ہر تان میں ساز بھرنے لگا۔ بارش تھم گئی ،رات گزر چکی تھی صبح کی اذان ہو گئی ۔

اب میں چلتا ہوں ، اب جب آؤں گا تو اپنی شہزادی کو لینے آؤں گا ۔سپہ سالار نے شہزادی کے ہاتھ کو آہستگی سے چھوڑا اورچل دیا ۔شہزادی اس کی چوڑی کمر کو دیکھتی رہی یہاں تک کہ وہ منظر سے غائب ہو گیا ۔

شہزادی ۔ ۔۔کنیز کی آواز نے شہزادی کو چونکا دیا



کنیز ۔۔۔وہ آیا تھا ۔۔۔ شہزادی کی اانکھوں میں عجیب سی چمک تھی ۔

وہ کون؟؟؟ کنیزنے حیرت سے پوچھا

وہ شاید کسی دیس کا شہزادہ تھا ۔ اس نے کہا ہے کہ وہ ضرور واپس آئے گا ۔مجھے یہاں سے لے جانے کے لیے۔۔۔۔ شہزادی کے چہرے پر نہ جانے کتنے رنگ بکھر گئے

یہ اتنا آسان نہیں ہوتا ۔ شہزادی لوگوں کی باتوں پر یقین مت کیا کرو ۔ کیا معلوم وہ اپنے دیس میں جاکر اتنی ذمہ داریوں میں پھنس جائے کہ واپس ہی نہ آ سکے ۔ اور تمھیں بھول ہی جائے ۔کنیز نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا ۔وہ اس کی باتوں کو وہم سمجھ رہی تھی ۔

نہیں وہ مجھے بھول سکتا ہی نہیں ۔ اس نے کہا ہے ۔۔وہ ضرور آئے گا ۔ شہزادی نے اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ ابھی تک اپنے ہاتھ پر سپہ سالار کے ہاتھ کی گرمی کو محسوس کر رہی تھی۔

ضروری نہیں ہے ۔۔خیر اندر چلو۔۔۔ عجیب حماقت ہے ۔ اتنی ٹھنڈ میںآپ یہاں کھڑی ہیں ۔ کنیز اسے پکڑ کر کمرے میں لے گئی۔

سٹیج کے سامنے پردے گرا دیئے گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند لمحوں میں نئے سین کاآغاز ہوا

اس روزبارشپھرسے برس رہی تھی ۔ کنیز اور شہزادی ٹیرس پر کھڑی تھی ۔موسم خاصا اچھا تھا ۔ یہ موسم شہزادی کا پسندیدہ موسم تھا لیکن موسم کے اچھا یا برا ہونے کا تعلق انسان کے اندر کے موسم سے ہے ۔کبی کبھار برستی بارش بھی انسان کے اندر کے کی آگ کو بجھانے کی بجائے بھڑکانے کا کام کرتی ہے ۔بالکل ایسے ہی جیسے اگر سپرٹ کو پانی پر پھینک دیا جائے تو پانی میں آگ بھڑک اٹھتی ہےْ ۔شہزادی کے چہرے پر حزن و ملال تھا ۔آج وہ مسکرا بھی نہیں پائی تھی ۔

آپ کو تین دن ہو گئے روتے ہوئے ۔ اب چپ کر جاؤ۔ بس کرو اور کتنا رو گی ؟ کتنا سوگ مناؤ گی ؟۔کنیز نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا

کنیز۔ میرے ساتھ ایسے کیونکر ہو سکتا ہے ۔ شہزادی کی آنکھیں نم تھیں ۔ اس نے کنیز کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا

جو ہونا تھا ہو گیا ۔تم توبہت میچور لڑکی ہو ۔ تم ایسے بی ہیو کرو گی ، مجھے یقین نہیں آرہا ۔بچپنا مت دکھاؤ۔کنیز نے دکھ سے اس کا سر تھپتھپاتے ہوئے کہا

کنیز!میں انسان ہوں ۔ پتھر تو نہیں ہوں۔ میں نے تو ہاتھوں کے جل جانے کے ڈر سے کبھی جگنو پکڑے ہی نہیں ، صرف خواب دیکھا تھا پر اس خواب نے تو آنکھوں میں ہی آگ لگا دی ۔اس ایک خواب کی کرچیاں میری آنکھوں میں بھر گئی ہیں ۔ شہزادی پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

بس کرو ۔ شہزادی ۔ یہ کیا بے وقوفی ہے ۔ اپنی آنکھیں دیکھو کس قدر سوج گئی ہیں ۔ کنیز نیقدرے غصے سے کہا

اس نے کہا تھا کہ وہ ضرور آئے گالیکن وہ نہیں آیا ۔ کنیز!وہ نہیںآیا وہ نہیں آئے گا ۔ شہزادی کنیزکے کندھے پر سررکھ کر روتی رہی یہاں تک کہکنیز کا کندھا بھیگ گیا۔

بس کرو ، چپ ہو جاؤ۔ اس کی سلطنت کو اس کی ضرورت ہوگی ۔ کنیزنے کہا ۔وہ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتی رہی اور شہزادی سسکتی رہی ۔

اس کی سلطنت کو اس کی ضرورت ہے اور مجھے ۔۔۔۔اس کی آواز میں لغزش تھی

شہزادی رحم کرو خود پر ۔ تمھارا جسم تپ رہا ہے ۔دیکھو کتنا تیز بخار ہو گیا ہے تمھیں ۔۔۔کنیزاسے دلاسادینے لگی ۔ شہزادی کی آنکھوں میں جیسے سیلاب امڈ آیا تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ نازک جسم بخار کی آگ میں جھلس رہا تھا ۔

کنیزاس نے وعدہ کیا تھا ۔ میں نے کتنی دعائیں مانگی تھی کہ وہ لوٹ آئے ۔میری ایک بھی دعا پوری نہیں ہوئی اور دیکھو وہ نہیں آیا ۔شہزادی ہلکے ہلکے سسک رہی تھی ،آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے

اس کی سلطنت ۔۔۔۔۔کنیزنے پھر سے کچھ کہنا چاہا

اس کی سلطنت ، اس کی سلطنت ۔۔۔کنیزپھر وہ آیا کیوں تھا مجھے اس قدر دکھ اور تکلیف دینے کے لیے ؟؟ شہزادی غم میں بولتی چلی گئی

ہو سکتا ہے اس نے تم سے جھوٹ بولا ہو ؟؟؟؟کنیز نے اسے ٹالنے کے لیے کہا

جھوٹ ۔۔۔ نہیں کنیز!۔میرا دل نہیں مانتا کہ وہ جھوٹ بول سکتا ہے ۔وہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا ۔ شہزادی نے کہا

جھوٹ نہ بھی ہو تو اب آپ مان لیں کہ وہ کبھی نہیں آئے گا ۔کنیز نے رسانیت سے اسے سمجھانے کی کوشش کی

لیکن میں کیسے مان لوں کہ وہ کبھی نہیں آئے گا ۔ وہ پھر سے سسک اٹھی

آپ کو ماننا پڑے گا ۔ شہزادی کیونکہ یہی حقیقت ہے ۔ کنیز نے کہا

یہ اتنی تلخ حقیقت ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیسے مان لوں ۔ شہزادی نے کہا

حقیقتوں کو مان لینا ہی عقلمندی ہے شہزادی ۔ کنیز نے کہا

ہاں شاید ۔ شہزادی کھوئی کھوئی بول رہی تھی

اس دن بھی میں نے کہا تھا ناںآپ کو۔۔برف کے ٹکڑے ہاتھوں میں پگھل جاتے ہیں ۔یہ ٹکڑے گرم ہاتھوں کو ٹھنڈا کر دیتے اور پھر بہہ جاتے ہیں ۔ لیکن آپ نہیں مانی ۔ آپ کو برف کے ٹکڑوں سے کھیلنے کا شوق تھا ۔ اسی شوق میں یہ دکھ اٹھایا آپ نے ۔ کنیز نے دکھی لہجے میں کہا

لیکن ۔۔۔میرے ہاتھوں میں تو یہ ٹکڑے چند لمحے بھی نہیں رہے۔ چند لمحے بھی نہیں ۔میرے ہاتھ ان ٹکڑوں سے ٹھنڈے نہیں ہوئے لہولہان ہو گئے ۔ شہزادی نے کہا اور ہارے ہوئے جواری کی طرح سر ہاتھ میں تھام کر زمیں پربیٹھ گئی

ہاں ۔۔برف کے ٹکڑے ہاتھوں میں کہا ں ٹہرتے ہیں ۔یہ تو وہ پانی ہے جو دھوکا ہے ۔ کنیز نے کہا

ڈرامہ ختم ہو گیا ۔ شہزادی کا رول ادا کرنے والی علینہ آنسوؤں سے رونے لگی۔اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا

اس نے اپنی ہتھیلیاں پھیلا کر دیکھا ۔ ہا ں وہ ہاتھ بھی برف کے ٹکڑوں سے زخمی تھے



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *