دل کہ شورش زدہ مکاں ہی تو ہے

شعیب بخاری

ایک قریہء بے اماں ہی تو ہے
دل کہ شورش زدہ مکاں ہی تو ہے

ہم سے صحرا نورد لوگوں پر
بس دعاءوں کا سائباں ہی تو ہے

پھر ہے وہ شخص محور وجداں
پھر دل و جاں کا امتحاں ہی تو ہے

عشق دشوار بھی نہیں اتنا
ایک مقتل ہے اک سناں ہی تو ہے

مہ نازاں ترے مقدر میں
ایک مغرور آسماں ہی تو ہے

دل وہ کافر ہے مانتا ہی نہیں
ورنہ یہ شہر دوستاں ہی تو ہے

تیری تابندگی کی خیر صنم
وحشت شب یہاں وہاں ہی تو ہے

ہم بھی پامال کر دیے جائیں
ہم بھی زرداب ہیں خزاں ہی تو ہے

ہم گریزاں ترے تصور سے
کہ شب غم بھی بدگماں ہی تو ہے

ضبط کر ضبط آبلہ پائی
زندگی دشت بے نشاں ہی تو ہے

خشک بیلوں نے کھا لیا آنگن
گھر بھی وحشت بھرا جہاں ہی تو ہے

چھوڑیے قصہء وفا شاہ جی
جھوٹ ہےزیب داستاں ہی تو ہے



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *