قربانی آن لائن 

کالم نگار  :طیبہ عنصر مغل،اسلام آباد

صاحب ہم تو نہ ہی کوئی دانشور ہیں اور نہ ہی جید عالم لیکن بہرحال الحمدلله  مسلمان ضرور ہیں آج اپنے ایک دانشور دوست کا کالم نظروں سے گزرا یقین کریں حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
حضرت کا کہنا تھا سعودی عرب اور دوبئ میں  قربانی سلاٹر کے ذریعے کی جاتی ہے اور ان کے بقول بہترین ذریعہ آن لائن  ہے کہ آپ ایپس پہ بیٹھ کر جانور پسند کریں اور ادائیگی  کر دیں جانور کو اسی وقت وہ لوگ ذبح کر دیتے ہیں اور گوشت بھی شاید آن لائن  بٹ جاتا ہے ،ان کی تجویز یہ ہے کہ پاکستان  میں بھی اسی سسٹم کو رائج کرنے کے بارے میں سوچا جائے اور اس سلسلے  میں پاکستان جیسے ملک میں بھی اس طرح کی ایپس بنائی جائیں اور آن لائن قربانی کی جائے
اس کی وجوہات ميں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ قربانی نالیوں کے کنارے ہوتی ہے اور اس سے گندگی پھیلتی ہے اور رہی بات آلائشوں کی تو انہوں نے اس پہ بھی صدیوں سے دہرایا ہوا لیکچر دہرا دیا
اب میں کچھ کہنے کی جسارت کروں گی کہ ہمارے یہ دانشور جو بیرون ملک کی تقلید میں اسلام کی روح کو ہی بھول رہے ہیں  ،سعودی عرب میں حجاج کرام کے لیے اگر یہ اقدام کیا جاتا ہے تو ان کو پھر بھی رعایت دی جا سکتی ہے کہ سلاٹر سے یہ کام انجام دینا ان کی مجبوری  ٹھہری
کیونکہ حجاج کرام کا ایک عظیم اجتماع ہوتا ہے جن کو قربانی کا فریضہ ادا کرنا لازم


ہے لیکن بہرحال اسلام کوئی سخت مذہب نہیں ہے وہاں بھی ہمیشہ سلاٹر نہیں تھے اور خدانخواستہ اگر کسی سے قربانی کرنا رہ بھی جائے تو اس کے لیے بھی کفارہ کا طریقہ کار  موجود ہے ‫ایک اس بات پہ مجھے اپنے وطن پہ فخر ہے کہ اس ارض پاک پہ آج بھی طرز ابراہیمی قربانی کا عمل دہرایا جاتا ہے ،ہمیں نالیوں کے کنارے ذبح کیا گیا  گندہ گو شت منظور ہے لیکن میرے دانشور دوست سے اپیل ہے کہ ہو سکے تو بہت لکھنے سے وقت نکال کے کبھی اسلام کا مطالعہ لازمی کریں
قربانی کا مقصد کہاں جائے گا جب آپ جانور کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھے بغیر گوشت کو دوسروں تک پہنچانے کی محنت نہیں کریں گے ،جانور کی خدمت نہیں کریں گے اور وہ قدرتی امر کہ جب ہم جانور کے ساتھ کچھ دن ہی رہ کر سہی ایک انسیت محسوس کرتے ہیں اور قربانی تب مقبولیت کے درجات پاتی ہے  جب ہم ذبیحہ کو اللہ کی بارگاہ میں رخصت کرتے ہوئے آنکھیں نم کرتے ہیں
ایک خاص بات کا حوالہ میں دینا ضروری سمجھوں گی کہ اسلام تو کسی قصائی کے ہاتھوں سے زیادہ مناسب سمجھتا ہے کہ قربانی کرنے والا اپنے ہاتھ سے قربانی کرے حتی کہ خواتین کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ بھی قربانی اپنے ہاتھ سے کر سکتی ہیں تو کریں تو سلاٹر کے مشورے سمجھ سے باہر –
اب ذرا اس مشورے کو سیاسی تناظر میں دیکھتے ہیں وہ ملک جس میں کرپشن کی انتہا ہے وہاں ہنسی آرہی ہے اس مشورے پر کہ ہم آن لائن جانور پسند کر بھی لیتے ہیں  تو ہمیں کون ضمانت دے گا کہ قربانی واقعتاً  کر دی گئ ہے یا پیسے چوروں کی جیب میں گئے
یہ ملک جس میں سارا سال لوگ بقول دانشوروں ہی کے بکرے کے نام پر گدھے کھاتے رہتے ہیں –
وہ آن لائن کیسے ضمانت دیں گے کہ بکرا ذبح ہوا گائے یا گدھا ،-
مجھے تو اس عجیب وغریب مشورے میں محترم دوست کی لگتا ہے کچھ ذاتی دلچسپی ہے کہیں سلاٹر کا کام انہوں نے اپنے ذمہ ہی تو نہیں لینا ورنہ تو ہم اپنے ملک کی حالت زار پہ پہلے ہی کرپشن کے ہاتھوں تنگ ہیں اوپر سے ایک اور کرپٹ ادارے کا اجراء کر دیں مزید  اپنی اسلامی زندگی کے اس اہم ترین  فریضہ کو بھی کرپشن کے حوالے کر ڈالیں ،کاش  یہ محترم سمجھ سکتے کہ تکبیر ،خون کا نالی میں  بہنا قربانی سے مشروط ہے رہی بات آلائشوں کی سر راہ بکھرے رہنے اور اس سے غلط عناصر کے فائدہ اٹھانے کی تو یہ سب حکومت کی غفلت کا نتیجہ ہے اگر صفائی کا انتظام  ناقص نہ ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ‫آلائشوں  سے مسائل بن جائیں
جن ممالک کا حوالہ دیا جارہا ہے  وہاں کی کیا ضمانت ہے کہ آلائشوں کو تلف کیا جاتا ہے یا وہاں بھی ان آلائشوں سے درپردہ وہی کام لیا جاتا ہے جو ہمارے ملک میں نظر آتا ہے اور پکڑ دھکڑ عمل میں آ جاتی ہے
دراصل میں تو ان ممالک کو اسلامی ممالک محض اس حد تک سمجھتی ہوں کہ وہاں سے اسلام کی ابتدا ہوئی اور سعودی عرب  ہمارے لیے عقیدت و محبت کے عظیم مرتبہ ہے کہ کعبہ وقبلہ حج وعمرہ کی سرزمین ہے ورنہ وہاں کے باشندے تو وہ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں جو ہندو گاؤ ماتا کہہ کر اس کے احترام میں  کرتے ہیں ایسے مناظر اکثر لوگوں نے دیکھے ہوں گے کہ ہندو اگر گائے کی عقیدت میں اس کے پیشاب سے بہرہ مند ہو رہے ہیں تو اونٹ کے ساتھ یہی عمل سعودی بادشندہ کرتا دیکھا گیا ،اور دوبئ ،کی تو بات ہی مت کریں دنیا بھر کی فحاشی وہیں کی جاتی ہے ،کیا آج سلاٹر انڈسٹری کے ساتھ کل ان عوامل کو بھی ہم پہ مسلط کرنے کی رائے دی جائے گی  خدارا ہمیں اپنے ملک میں اپنے تہواروں کو اسلامی طرز سے منانے دیں
یہ ماڈرن غیر اسلامی  طرز اپنانے کا فلسفہ مت جھاڑیں کہ ہماری آنے والی نسل قربانی کرنا ہی بھول جائے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *