امیر جیت گیا اور غریب ہار گیا!!!

محسن رفیق اسلام آباد
2 دسمبر 2012 کی رات ایک فیملی اپنی بہن کا ولیمہ اٹینڈ کرکے گھر آرہی تھی کہ سندھ کے تالپور گھرانے  کے چشم و چراغ سراج تالپور نے ان میں سے ایک لڑکی کو چھیڑنا شروع کیا۔ لڑکی کے بھائی، شاہزیب خان نے اسے منع کیا، جھگڑا ہوا


اور تالپور کو وہاں سے جانا پڑا۔
پھر تالپور اپنے دوست، سندھ کے جتوئی خاندان کے چشم و چراغ شاہ رخ جتوئی اور دو مزید دوستوں کو لے کر ان کے گھر آیا، پھر سب کی آنکھوں کے سامنے شاہزیب خان کو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے سیدھے فائر کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا اور فرار ہوگئے۔
شاہزیب کا والد ڈی ایس پی تھا، مقدمہ چلا، ملزمان کو گرفتار کیا گیا، گواہ وغیرہ سب موقع پر موجود تھے، سیش کورٹ کے جج نے شاہ رخ اور سراج کو پھانسی جبکہ دوسرے دو ساتھیوں کو معاونت کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی۔
معاملہ جتوئی اور تالپور گھرانوں کا تھا، ایسے ختم ہوجاتا تو پھر ہمارے ملک کو پاکستان کون کہتا؟؟ کون کہتا کہ ہم ویٹروں کے غلام نہیں ہیں؟؟
چنانچہ مقتول کی فیملی پر دباؤ ڈالنا شروع کیا گیا۔ انہیں دھمکیاں ملیں کہ اگر ہمارے بیٹے نہ رہے تو تمہاری بیٹیوں کو ایک ایک کرکے سربازار ننگا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ہمارا تو نظام بھی ایسا ہے کہ ایک طاقتور شخص اپنی طاقت کے زور پر ایک غریب سے اپنی بات منوا لیتا ہے.ہمارا انصاف کا سسٹم اتنا کمزور ہے کہ  ایک غریب کو اپنا حق لینے کی بجائے معاف کرنا پڑتا ہے پھر شاہزیب خان کے مجبور والدین کو مجبوراً ایک معافی نامہ سائن کرکے عدالت جمع کروانا پڑا جس میں انہوں نے اپنی خوشی اور اللہ کی خاطر تمام مجرمان کو معافی دینے کا اقرار کیا۔



لیکن بس اتنا کافی نہ تھا، کیونکہ قتل کے ان مجرمان کے خلاف دہشتگردی کی دفع بھی عائد تھی جسے کوئی انفرادی طور پر معافی دے کر ختم نہیں کروا سکتا۔
چنانچہ پھر تالپور اور جتوئی گھرانوں نے اپنے سیاسی اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے زریعے استغاثہ کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف عدالت میں دہشتگردی کی دفعہ قائم کرنے کے خلاف رٹ دائر کی گئی جس کے جواب میں  سندھ حکومت کی طرف سے جان بوجھ کر انتہائی کمزور بیان داخل کیا گیا،کیونکہ حکومت ان وڈیروں کے ساتھ تھی وہ ان کو  باعزت رہائی دلوانا چاہتی تھی مگر نتیجے کے طور پر چند ماہ پہلے سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان پر دہشتگردی کی دفع ختم کردی۔
اب معاملہ اور  آسان ہوگیا – نئے سرے سے معافی نامہ جمع ہوا اور آج چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔ چاروں ملزمان پورے 5 سال بعد رہا ہوکر باہر آئے تو انہوں نے وکٹری کے نشان بنا رکھے تھے جیسے کوئی بہت بڑا فاتح اپنی مقبوضہ سلطنت کی شاہراہوں سے گزرتے ہوئے بناتا ہے۔
یہ وکٹری کا نشان ہمارے عدل پر ہماری حکومت پر اور ہماری اس بیس کڑور عوام پر  ایک سوالیہ نشان ہے ؟؟میں نے اس کا وکٹری کا نشان دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے وہ ہماری اس غریب قوم پر لعنت بھیج رہا ہو؟اگر میرے ملک اس راہ چلتے کسی امیر کی گولیوں کا نشانہ بن گیا ہے تو آپ کو بھی  یقیننا معاف کرنا ہوگا کیونکہ اب اور آج سے شارخ جتوئی کے پاکستان میں یہی قانون ہے اور یہی انصاف ہے؟
کیا یہ مقدمہ شاہزیب خان کے والد کی معافی سے ختم ہونا چاہیئے تھا؟ کیا اس میں ریاست کو فریق بنتے ہوئے جتوئی اور تالپور گھرانے کے ان ظالموں کو پھانسی دلوا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ظلم کا راستہ بند نہیں کروانا چاہیئے تھا؟
اپنے شہسواروں کو قتل کرنے والوں سے خوں بہا  طلب کرنا وارثوں پہ واجب تھا قاتلوں پہ واجب تھا کہ خوں بہا ادا کرنا…..میں اس بیس کڑور عوام کے لیے کچھ سوال چھوڑ رہا ہوں؟
جس ملک کا نظام شارخ جتوئی کو سزائے موت نہ دے سکاپتہ نہیں کیوں اس ملک کی عوام ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی پر دیکھنا چاہتی تھی؟
کسی نے سچ کہا تھا ہم وہ غلام ہیں جن کے پاؤں سے زنجیریں بدل دی جائیں تو خود کو آزاد سمجھتے ہیں پہلے انگریزوں کی زنجیریں تھیں اب وڈیروں کی کوئی فرق نہیں رہا؟؟
اعتزاز احسن کی عدلیہ تحریک کے دوران یہ نظم بہت مشہور ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ،
ریاست ہوگی ماں کے جیسی
ہر شہری سے پیار کرے گی…
ریاست ہماری واقعی ماں جیسی ہے، بس شہریوں کو جتوئی، تالپور، شریف، زرداری چودھری گجر اور بھی ان جیسے خاندانوں سے ہونا پڑے گا۔
اگر آپ کا تعلق ان خاندانوں سے نہیں تو پھر ریاست ہوگی ڈائن جیسی، ہر شہری پر ظلم ہوگا اور ہر شاہ رخ  جتوئی جیسا قاتل ایسے وکٹری کا نشان بنا کر نکلےگا اور وڈیروں,جاگیر داروں کے ہاتھوں اس غلام قوم لعنت دے کر چلتا بنے گا؟؟؟؟



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *