توبہ کا دروازہ کھلا ہے

ٓام زبیر فاروقیؔ
توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا ،گناہوں سے اطاعت کی طرف، غفلت سے حضوری کی طرف ۔ توبہ کرنے سے اللہ تعالی بندے کے گناہ اس طرح ڈھانپ دیتا ہے کہ کسی کو علم نہیں ہونے دیتا ۔اور آخرت میں اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے ۔سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ؒ سے کسی نے پوچھا کہ توبہ کا کیا مطلب ہے ؟انہوں نے فرمایا ’’گناہوں کو فراموش کردینا اور گناہ کی لذت کا احساس بھی ختم ہوجانا



۔گویا کہ وہ جانتا ہی نہیں کہ گناہ کیا چیز ہے ؟‘‘توبہ کرنا واجب ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے توبواالی اللّٰہ جمیعا چونکہ ہر بندہ گناہ اور معاصی سے خالی نہیں ہے اس لئے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرے ۔

تو بہ کے صحیح ہونے کی شرائط چار ہیں ۔
(۱)محض خدا کی رضا کیلئے توبہ کرے ۔جس میں مخلوق کا خوف شامل ہو ،نہ لوگوں کی مدح کا حصول ہو۔
(۲)گناہوں پر ندامت ہو۔
(۳)ظاہری وباطنی گناہوں سے اجتناب کرے ۔
(۴)پختہ عہد اور عزم کرے کہ آئندہ کوئی گناہ نہ ہو اور ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت طلب کرے۔حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا ہے رات میں، کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔(مظاہرحق)اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی منتظر ہوتے ہیں کہ بندے مجھ سے معافی مانگیں ،توبہ کریں اور میں ان کی توبہ قبول کروں۔منقول ہے کہ حضرت سفیان ثوریؒ بیمار ہوگئے ،حماد بن سلمہ ؒ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تو حمادؒ سے سفیان ؒ نے کہا تمہارا کیا گمان ہے کہ اللہ مجھ جیسے کو بخش دے گا ؟تو حمادؒ نے کہا’’ اگر مجھے اس بات کا اختیار دیا جائے کہ تو حساب کیلئے اپنے باپ کے پاس چلا جا یاخدا کے پاس، تومیں اللہ کے سامنے پیش ہونے کو ترجیح دوں گا ۔‘‘مقصد یہ تھا کہ آپ اللہ پر بخشش کی امید رکھیں ۔کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے، اس لئے توبہ کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں توبہ پر قائم رہ سکوں گا یا نہیں تو توبہ کیسے



کروں؟ بلکہ اگرکوئی گناہ سرزد ہوجائے تو پھر توبہ کریں ۔ اور یہ بھی خیال کریں کہ اگر اس توبہ کرنے کے بعد میری موت آجائے تو یہ توبہ میری آخری توبہ ثابت ہو ۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرما یا ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطہرین بے شک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔نیز حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالی سے استغفار کرتاہوں۔(بخاری)اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کیا کرتے تھے ۔حالانکہ وہ گناہوں سے منزہ تھے ۔اگر وہ بھی کثرت سے توبہ کرتے تھے تو ہمیں بھی اللہ تعالی سے کثرت سے استغفار طلب کرنی چاہئے ۔حضرت علی ؓ نے فرمایا ’’روئے زمین پر عذاب الہی سے امن کی دوپناہ گاہیں تھیں ایک اٹھ گئی ہے اور ایک باقی ہے جو اٹھ گئی ہے وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات تھی اور جو باقی ہے وہ توبہ ہے کیونکہ قرآن کریم میں ہے وماکان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وماکان اللہ معذبہم وہم یستغفرون کہ اللہ تعالی اس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں جب تک آپ ان میں موجود ہوں اوران کو عذاب میں اس وقت تک مبتلا کرنے والا نہیں جب تک وہ استغفار کرتے رہیں۔ ‘‘حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں اٹھا لے اور تمہاری جگہ ایسے لوگوں کو پیدا کردے جو گناہ کریں اور اللہ سے بخشش ومغفرت چاہیں اور اللہ انہیں معاف کردے‘‘ (مسلم)اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات بے پناہ بخشش کرنے والی ہے اس لئے توبہ کرنے میں کوتاہی نہ کرنی چاہئے ۔خدا نخواستہ اس حدیث مبارکہ کا مطلب گناہ کی ترغیب دلانا نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کو معصیت سے ہٹا کر اللہ کی طرف لانا ہے ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اگرعاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے تواللہ معاف فرمادیں گے ۔بقولِ شاعر
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
 راہ دکھلائیں کسے کوئی رہروِمنزل ہی نہیں
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][follow id=”Username” size=”large” ]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *