کالم نویس :طیبہ عنصر مغل ،اسلام آباد
پچھلے کچھ عرصہ سے لگ بھگ جڑواں شہروں کے مقیم جس طرح سے تکلیف دہ حالات کا شکار ہیں اس کا اندازہ صرف یہاں رہنے والے ہی جان سکتے ہیں
کاروبار زندگی تو معطل ہونے لگ ہی گئے ہیں چہ جائیکہ روزانہ راولپنڈی اسلام آباد میں سروس کرنے والے خواتین و حضرات کو گھنٹوں کی خواری کے بعد دفاتر اور اداروں تک پہنچنا اور واپس گھروں تک آنا ایک دشوار گزیر عمل سے گزرنا پڑتا ہے ،
دوسری طرف تاجر برادری کو درپیش معاشی مشکلات سے نبرد آزمائی نےمعشیت کوتباہی کے دہانے پہ لاکھڑا کیا ہے انہیں تجارتی بل اور ٹیکسز کی ادائیگی تو جوں کی توں کرنا پڑ رہی ہے لیکن آمدن کی ذرائع رک جانے کے باعث وہ شدید مشکلات میں ہیں اور سختی سے ان دھرننوں کی پہ مذمت کرتے ہیں
اب ذرا دوسرے رخ سے دیکھیے چھوٹے بچوں سے لے کر یونیورسٹی کے طلبہ تک کس قدر دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے میلوں پیدل چل کر اپنے تعلیمی اداروں تک پہنچتے ہیں آنے جانے میں دونوں شہروں کے درمیان پہ بیٹھے ہمارے یہ محترم ساتھی اگر اسلام کے نام پہ یہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ذرا اسلام کے احکامات کو بھی مدنظر رکھیں کہ اسلام نے راستے روک کر بیٹھنے کو قبیح فعل قرار دیا ہے یہ جو دھرنے اور شریعت کا نعرہ لگانے والے دراصل شریعت کی روح سے ہی ناواقف ہیں کیا یہ بے خبر ہیں ان خواتین سے جو مشکلات میں پڑکر اسلام آباد سے راولپنڈی اور راولپنڈی سے اسلام آباد کا سفر بے انتہا مشکلات سے طے کر رہی ہیں
وہ تاجر جو کے پی کے اور کشمیر سے یہاں تجارتی منڈیوں میں آتے تھے اب وہ سارا سلسلہ رک چکا ہے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ نے لگے ہیں اس دھرنے کے خاتمے کےلیے انتظامیہ ،عدلیہ ،حکومت سب کیوں ناکام ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف جوابات پنپ رہے ہیں
اسلام آباد کے امن وامان کو نقصان پہنچانے کی یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے آخر
دارالحکومت کو کیوں بار بار رنگ برنگے دھرنوں کی نذر کیا جا رہا ہے اسلام آباد جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے اب دھرنا آباد کے نام سے بھی نہ مشہور ہوجائے
کہیں عدالت مزید دنوں کی مہلت دے رہی ہے تو کہیں کسی اور پہ الزامات دئیے جارہے ہیں ،عدالت نے اگر حکم دیا ہے تو پھر اس پہ عملدرآمد کیوں نہیں کیا جارہا ہے ،یہ دھرنے دینے والے ہی صرف ختم نبوت پہ ایمان نہیں رکھتے بلکہ ہر مسلمان حلفاً اس بات کا اقرار کر رہا ہے ختم نبوت پہ ان کا بلا شک وشبہ پورا ایمان ہے ایسے میں چند افراد کو اس بات کا ٹھیکیدار ہرگز نہیں بنایا جاسکتا کہ وہ پورے دو شہروں کو یرغمال بنا کر نجانے کون سے احساسات کو تسکین پہنچا رہے ہیں یا اپنی سیاسی دکانیں سجانے والے لیڈرز کو اس کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں یوں تماشا کھڑا کریں آخر اقوام عالم کو ہم پاکستان کے اندر اسلام کا کیسا چہرہ دکھا رہے ہیں اسلام جو پاکستان کی اکائی ہے اس وقت ضرورت ہے اس امر کی کہ تمام سیاسی جماعتیں آپس کے اختلافات کو بھلا کر مملکت خداداد پاکستان کے ہر پاکستانی کو درپیش مسائل کو حل کریں نہ کہایک دوسرے پہ کیچڑ اچھالنے میں پیش پیش ہوں ،ہر بات سے پہلے ہمیں ایک پاکستانی مسلم بن کر سوچنا ہوگا اسلامکی روح کو پہچاننا ہوگا جس میں تو غیر مسلم کو بھی حقوق حاصل ہیں یہ بھی ایک رخ ہے سازش کا ،اسلام کے روشن پہلوؤں کو دیکھ کر لوگ بغیر کسی جبر کے اسلام قبول کرنے لگے ہیں لیکن اس طرح کی حرکات کرکے اپنے مذہب اسلام کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ہمیں اس سازش کو روکنا ہوگا
کیونکہ ڈر تو اس بات کا بھی ہے
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کس جگہ ایسے جہاد کا ذکر ہے کہ جہاں معصوم شہریوں کو ایذا پہنچانے کی اجازت دی گئی ہو ،اسلام تو ہمیں راستے میں پڑے پتھر کو بھی ہٹا دینے کا حکم دیتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ راستے میں کنٹینرز اور رکاوٹیں کھڑی کر کے اسلام کی سر بلندی کا اہتمام کیا جا رہا ہے
کہیں یہ سازش کسی اور جانب سے نگاہ ہٹانے کے لیے تو نہیں ؟یہ سوال شدت اختیار کر رہا ہے
بچیاں راستوں کو پیدل طے کرتے گھروں تک شام کے اندھیرے پھیلنے تک نہیں پہنچ پاتی ہیں اگر خدانخواستہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا ہے تو کیا اس کی ذمہ داری یہ علماء لیں گے کیا اپنا احتساب کریں گے کتنی بے چینی اور کتنا اضطراب جھیل رہی ہے یہ پاکستانی قوم اس پہ طرہ یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو الگ دوسرے ممالک کے باشندوں سے طعنہ زنی کا سامنا بھی ہے کہ پاکستان ہر وقت کسی نہ کسی وجہ سے بدامنی کا شکار رہتا ہے اب اگر میڈیا ،حکومت ،عدلیہ ،اور متعلقہ ادارے اس دھرنے کو ختم کروانے یا کسی اور جگہ منتقل کروانے میں ناکام ہے تو سوال تو اٹھتا ہے کہ کون سی طاقت ہے جو انہیں اس کو ختم کرنے سے روک رہی ہے ایک دن ایسا نہ ہو عوام اس خود ساختہ دھرنوں کے ہاتھوں تنگ آکر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور جب عوام کا طوفان اٹھ کھڑا ہو تو تاریخ گواہ ہے افواج بھی بے بس ہو جاتی ہیں ترکی کا واقع اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے
اب استدعا ہے علماء کے اصل رہنماؤں سے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ہر مسئلے کو حل کر وانے کی ذمہ داری لیں،اسلام جبر کا دین نہیں ہے یہ امن وامان کا دین ہے مشکلات کے خاتمے کا دین ہے اور کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جن سے یہ دھرنے ختم کیے جائیں اور دھرنے والوں کے بھی جائز موقف کا حل تلاش کیا جائے ملک پہلے ہی بحران کا شکار ہے مزید ایسی صورتحال ہماری نسلوں میں مایوسی کا رجحان بڑھا رہی ہیں آنیوالی نسل کے اندر مایوسی اور اضطراب کو پھیلنے سے بچائیں اور اپنے اپنے حصے کی کوشش کرتے رہیں امید ہے کہ عدلیہ یہ دھرنا ختم کروا دے گی ورنہ کہیں عوام کا اعتماد اس آخری ادارے سے بھی اٹھ جائے گا جو ہر گز نہیں ہونا چاہیے پاکستان زندہ باد