! تحریر:۔ملک شفقت اللہ
وقت آن پہنچا ہے، سارے پردے ہٹ گئے اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔صرف اتنا سوچنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کا یہ کام ہم کریں یا ہماری جگہ کوئی اور نسل آباد ہو اور وہ کرے۔کب تک خواب غفلت کا شکار رہیں گے؟
جو دن دینا ہے اس سے چھٹکارہ نہیں! اور نہ ہی کوئی وقت دیا جائے گا!لیکن اس وقت جب خدا کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں ہو گی تو سوچ کر پچھتاوا کریں گے، کتنے خسارے میں تھے ہم، اپنی جانوں پر بہت بڑا ظلم کرتے رہے، کبھی گناہ کو گناہ نہیں سمجھا، اللہ نے تو موقعے دئیے تھے، لیکن ہم ہی غافل رہے۔منکر تو ٹھہرے کافر، ان سے موازنہ ہی کیا اور ہم کلمہ گو ہو کر
بھی منکر ہوئے؟
فتنوں سے پناہ مانگنے کی بجائے ان کی دلدل ،دنیاوی لذتوں میں گم، عیش پرستی، ریاکاری، لبرل ازم، کمیونزم اور سوشلزم جیسی غلاظتوں میں لوٹ پوٹ ہوتے رہے جو سرا سر کسی طور اسلامی طرز ہے ہی نہیں۔کس منہ سے سر اٹھائیں گے بارگاہِ اقدس میں کہ جب اس کے محبوبِ کبریا، سیدالانبیاء ﷺ نے ہمیں تک امانت کو مکمل پہنچا دیا؟
سب کچھ طے ہے اور نوشتہ تقدیر میں رقم
بھی تو ہم کیوں اس سے بھاگتے ہیں جو ہو کر رہے گا اور اس کے پیچھے جو محض چھلاوہ ہے حقیقت کچھ نہیں؟ کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کے سارے وعدے پورے ہو چکے! کیا کوئی وجہِ تاویل باقی ہے خدائے متعال کے احکام پر؟ کیا ہے تاویلیں لاؤ تو ذرا دیکھیں؟ امن پسندی جمہوریت میں کیسے ممکن ہے کہ جو صرف لوٹ کھسوٹ اور اجارہ داری کا طرزِ صیہونی ہے، جو مذہبی اقدار سے مستثنٰی ہے؟ کمیونزم اور سوشلزم جیسے کھوکھلے اور بے بنیاد غلیظ فلسفوں نے معاشروں کے ہاتھوں سے تہذیب و اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار چھین کر بے حیائی اور تعصب تھما دیا ہے۔
ساری نسلیں تباہ ہو گئیں، مسلمانوں جاگو کہ وقت شہادت آن پہنچا ہے، بہترین شہید اور دوزخ سے آزاد غازی ہونے کا موقع آن پہنچا ہے۔میرے اور آپ کے ایمان کا لازمی جزو قیامت پر ایمان لانا ہے، اور اب اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتاکہ قریب ہی آن پہنچے ۔ہم نے اپنی زندگی میں پا لیا، مصر
خراب ہوا، پھر لیبیا، مراکش، تیونس، پھر فلسطین، عراق و شام اور تمام عرب ممالک حتیٰ کہ سعودی عرب اور خلیج بھی فرقہ واریت کے فتنے کی جکڑ میں ہے۔ امت مسلمہ کی پاسبانی پاکستانی سرزمین سے ہی ہوگی،
پاکستانی حکمران سوچیں اور تسلیم کریں کہ دنیا فانی ہے اور ہم سب بھی فناہ کو لوٹے گے، بے شک اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہی ابدی زندگی ہے لیکن ہم اس فانی زندگی کے معمولی سے آرام کیلئے، ابدی کانٹوں کے بستر بچھا رہے ہیں، غلاظت بھرے اوڑھنے بُن رہے ہیں، قرآن و حدیث جو ہمارا نصب العین ہے اور جو ہمارا طرز و فلسفہ حیات ہے سے ہٹ کر نفسی نفسی پکار رہے ہیں، کتنی گھن آتی ہے جب اللہ دنیا میں ہی کسی کو اس کے گناہوں کے بدلے ذلیل وخوار کر دے، یہاں تک کہ ہونے والی آن پہنچے!اس وقت پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھ بڑا موقع لگا ہے ،ایک وقت تھا جب اسی طرح قبلہ اول پر چڑھائی کیلئے دشمن نے پر پھیلائے تھے تو اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے تمام عالم اسلام کے حکمرانوں کو اکٹھا کیا تھا اور اب پھر سے وقت ہے کہ کردار نبھایا جائے۔پاکستانی حکومت تمام عالم اسلام کے حکمرانوں کو جمع کرے اور اعلامیہ پیش کرے، جس میں سب سے پہلے تمام اسلامی ممالک سے امریکی سفارت خانوں کو بند کیا جائے، وہاں آباد پاکستانی نژاد وں کو وطن واپس بلایا جائے، اور جو کوئی بھی ملک یروشلم میں سفارت خانہ کھولے یا اسے اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرے تو اس کے ساتھ بھی ہر طرح کا بائیکاٹ کیا جائے کیونکہ عشق رسولﷺ، اطاعت اللہ اور محبتِ دین کا تقاضا یہی ہے کہ مؤمن اسلام کی ناموس و استحکام کیلئے تن ، من، دھن سے قربان ہو جائے۔ پھر عام جہاد کا اعلان کیا جائے کہ وقت دور نہیں مسلمانوں کے مسیحا کا ظہور ہو اور پوری دنیا پر نظام عدل، سلطنت خداداد قائم ہو۔شاید کہ اللہ کا کام کرنے سے اللہ ہمارے حکمرانوں اور ملک پر سے آزمائشیں اٹھا لے اور ہمیں اپنی بشارتوں والے نیک بندوں میں شامل کر لے۔
وہ دن دور نہیں جب ایک بہت بڑا میلہ لگنے والا ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان باطل کے مقابل ہوں گے لیکن اس سے پہلے کچھ ضروری کرنے کے کام ہیں جو اگر ہم اپنی ذمہ داری سمجھ کر نبھا لیں تو ہمارے
لئے نجات کا باعث ہو گا وگرنہ، اللہ کیلئے تو بہت آسان ہے کہ وہ ہماری نسل مٹا دے! چاہے پاؤں کے نیچے سے پانی نکال کر سیلاب ہمیں بہا لے جائے، چاہے تو ہم پر آسمانوں سے عذاب مسلط کر دے، چاہے تو زلزلہ پیدا کر دے اور ہم اوندھے منہ پڑے رہ جائیں، اور یہ بھی اس کے اختیار میں ہے کہ ہمیں آپس میں لڑوا کر طاقت کا مزہ چکھائے، نا مرنے والے کو پتہ ہو کہ مجھے کیوں مارا گیا اور نا مارنے والے کو پتہ ہو میں نے کیوں مارا، قاتل کی زبان پر گلہ کاٹتے وقت نعرہ تکبیر ہو اور مقتول کی زبان پر مرتے وقت کلمہ طیبہ۔یہ سب کتنا آسان ہے رب ذوالجلال کیلئے! ہمیں بس اس کے غیض و غضب سے امان مانگنی چاہیے۔
پاکستان عرب دنیا کا مدینہ ثانی ہے گویا اس سر زمین کے ذمے بہت بڑا کام لگا دیا گیا ہے۔لیکن دشمن مسلمانوں کی سرزمین مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے، کبھی ایران کی سرزمین سعودیہ عرب کے خلاف تو کبھی سعودیہ عرب کی سرزمین لبنان کے خلاف، کبھی مراکش، لیبیا، الجزائر، تیونس، مصر، عراق و شام اور پاکستان کے باشندوں کو ہی آپس میں لڑوا کر تو کبھی پاکستان کی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، اور ہم ہیں کہ سب کے سب ایک کمزور اور بزدل دشمن کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔ایران چاہتا ہے کہ اس کا مسلک پوری دنیائے اسلام پر رائج ہو اسی لئے وہ دشمن کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے، سعودی عرب چاہتا ہے کہ تمام عالم اسلام میں ان کا مسلک رائج ہو لیکن کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کسی مسلک کی تبلیغ و ترغیب دی تھی یا اسلام کی؟
اگر مانتے ہیں کہ اسلام کی ترغیب دی گئی تو یہ مسلکانہ فرسودہ طرز کو چھوڑ کر آنحضورﷺکی طرز پر لگ جائیں اور جو تعریف انہوںﷺ نے اور قرآن نے مؤمن کی کی ہے ویسے مؤمن بن جائیں۔پاکستان، مصر، لیبیا، عراق و شام وغیرہ کے باشندے آپسی لڑائی کو چھوڑ کر باہمی ہم آہنگی اور محبت پیدا کریں کیونکہ دشمن نے یہ نہیں پوچھنا کہ تم شیعہ ہو یا سنی، انصار ہو یا مہاجر، تاجر ہو یا مزدور، بلوچی ہو یا سندھی، پشتون ہو یا پنجابی بس غلام بنانا یا ماردینا ہے۔یہ وقت ایک عظیم الشان میلے کے منعقد ہونے کا ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا،
جس کا آغاز آدمؑ سے ہوا اور پھر ظہورِ عیسیٰ ؑپر اختتام ہو گا، ایک غزوہ جس کا شہید، شہیدوں میں سے افضل اور اس کا غازی جہنم کی آگ سے آزاد انسان ہوگا، جس کے بعد روئے زمین عدل و انصاف اور اسلام سے بھر جائے گی، ہر طرف امن ہو گا۔وقت قریب آ چکا ہے اور میلے کا میدان پوری کرہ ارض
ہے ، سمت سب کی اللہ کے اسی گھر کی طرف ہے جو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا تھا۔یہاں پہلوان حق و باطل کیلئے کھیلیں گے، جس میں حق کی جیت کیا ہوتی ہے ایک مثال قائم ہو جائے گی۔اے دولت کے پجاریوں اور ہوسی نفس کے غلام حکمرانوں، یہ دولت، شہرت، طاقت اور عزت سب اللہ کے خزانے ہیں، تمہارے ساتھ قبر میں نہیں جائیں گے بلکہ دنیا میں ہی رہ جائیں گے، کوئی شخص بڑا یا چھوٹا نہیں ہاں مگر تقوٰی کی بنیاد پر۔تقوٰی یہ ہے کہ اس آخری میلے کیلئے تیاری کی جائے، یہ زمین جائیداد عیش و عشرت کچھ کام نا آئیں گے، ہاں مگر نجات اسی میلے میں ہے۔ایک پنجابی صوفی شاعر نے دنیا کو تج کے آخرت سنوارنے والے پیغام کے حامل اپنے کلام کا آغاز ہی کیا خوب انداز میں کیا:
اوڑک جانڑاں ای مر اوئے، چل میلے نوں چلئے
کھسماں نوں کھانداں تیرا گھر اوئے، چل میلے نوں چلئے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][follow id=”Username” size=”large” ]