تحریر : ابصار فاطمہ، سکھر
ممبر ینگ وومین رائٹرز فورم اسلام آباد چیپٹر
کیا کچھ لوگ پیدائشی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں؟ یا جو لوگ غیر ذمہ دار ہوتے ہیں ان کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے؟
آیئے آج ذرا تفصیل سے جانتے ہیں کہ غیر ذمہ داری کیا ہے کچھ لوگ غیر ذمہ دار کیوں ہوتے ہیں اور ان کے اس مسئلہ سے کیسے نپٹا جائے۔
ذمہ داری ایک انسان کی بنیادی صلاحیت اور معاشرے کی خاص طور پہ اس کے گھر والوں کی اس سے توقعات کے درمیان توازن اور عدم توازن کا نام ہے۔ اگر ہم انسانی تمدن کی ابتداء دیکھیں تو ذمہ داریوں کی تقسیم ہر شخص کی صلاحیتوں کی بنیاد پہ ہوئی یعنی جس میں جو صلاحیت تھی اسے وہ ذمہ داری دے دی گئی۔ وقت گزرتے گزرتے اب یہ طریقہ اپنا لیا گیا ہے کہ ذمہ داری پہلے سے سوچ لی جاتی ہے اور اسی ذمہ داری کی بنیاد پہ پیدا ہونے والے بچے کی زندگی ترتیب دی جاتی ہے۔ مگر یہاں بھی مسئلہ یہ آتا ہے کہ والدین یہ تو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کس بچے /بچی کو کیا ذمہ داری نبھانی ہے مگر وہ یہ ذمہ داری کیسے نبھائے گا /گی یا اس میں چنیدہ زمہ داری نبھانے کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں اس پہ غور نہیں کیا جاتا۔ عموما صلاحیت ہونے کے باوجود ذمہ داری ادا کرنے کا طریقہ سکھانے پہ بالکل توجہ نہیں دی جاتی۔
مثلا لڑکی جیسے ہی پیدا ہوتی ہے تو گھر والوں کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بڑے ہو کے گھر سنبھالے گی۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ اسے گھر صاف کرناـ، کپڑے دھونا، کھانا پکانا، بجٹ مینٹین کرنا آنا چاہیے مگر کیسے؟ اس پہ دھیان دینے کا طریقہ کچھ ہوں ہوتا ہے کہ کیا تو ایک طویل عرصے اسے پڑھائی کے لیے وقت دیا جاتا ہے اور میٹرک یا انٹر کے بعد تقاضے شروع کیے جاتے ہیں کہ تمہیں کچھ نہیں آتا سسرال جا کر کیا کرو گی۔ یا پھر کم عمری سے کوئی بھی کام پکڑا دیا جاتا ہے کہ کر کے دکھاو پہلی بار چاول پکائے ہیں تو بھی پرفیکٹ کیوں نہیں گھر میں باپ بھائی حضرات کھانا یا تو اٹھا کے پھینک دیتے ہیں یا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ تمہیں تو کچھ آتا ہی نہیں امی ہی کھانا پکائیں ہم یہ بے سرا کھانا نہیں کھائیں گے۔
اب دوسری مثال لیں ایک لڑکے کی جس کے پیدا ہوتے ہی والدین نے شکر ادا کیا کہ
بڑھاپے کا سہارا آگیا اب بچپن سے آو بھگت شروع کی جاتی ہے کہ یہ تو لڑکا ہے مزاج تو تیز ہوگا تو کھانا پرفیکٹ ہو، کپڑے ہمیشہ امی یا بہن دھو کے استری کر کے دیں، جوتے بھی کوئی دوسرا ہی پالش کرکے دے اور اس طرح عموما لڑکے اپنی اسکول لائف ختم کر کے کالج میں آتے ہیں تو ایکدم انہیں بتایا جاتا ہے کہ کیونکہ تم لڑکے ہو بلکہ تم گھر کے مرد ہو تو تمہیں گھر سنبھالنا ہے باپ بوڑھا ہوگیا ہے اور تم اس کا پیسا اڑا رہے ہو پڑھتے بھی توجہ سے نہیں ہو۔ وہ لڑکا جسے سودا لانا بھی نہیں سکھایا گیا کہ ٹنڈے اچھے کونسے ہوتے ہیں اور خراب کیسے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کالج سے نکلتے ہی اعلا عہدے پہ فائز ہوگا اور باپ کا سارا بوجھ سنبھال لے گا۔
لڑکی اور لڑکے کی زندگی کا یہ دور سب سے اہم ہوتا ہے یہیں یا تو اولاد والدین کے قریب آجاتی ہے یا پھر وہ فاصلے جنم لیتے ہیں جو کبھی نہیں مٹتے اور بڑھاپے کا سہارا خود والدین کو اولڈ ہوم پہنچا آتا ہے۔
اب آتا ہے سوال کہ ذمہ داری سکھائی کیسے جائے تو سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے یہ فیصلہ کرنے کہ بجائے کہ اسے بڑے ہو کر کیا کرنا چاہیے انہیں وقت دیں ان کی صلاحیتوں کو جانچیں کہ یہ کیا کرسکتے ہیں ۔جسمانی اور ذہنی معذور اسی لیے والدین کو بوجھ لگتے ہیں کیونکہ ہم ان سے ایک ہی ذمہ داری کی توقع رکھتے ہیں۔ اس کے بعد آتا ہے مرحلہ اپنی ذات کی ذ مہ داری اٹھانے کی صلاحیت ہونا ،اپنا کام خود کرپانا، اپنے کپڑے سنبھال سکنا،اپنی چیزیں خیال سے رکھنا اوراپنے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا۔ جو کہ ہر انسان کو آنا چاہیے تاکہ کوئی کسی پہ کسی بھی قسم کا بوجھ نہ ہو۔ نہ عورت مرد پہ کمائی کے حوالے سے نہ مرد عورت پہ کھانا پکانے کے حوالے سے۔ یہ وہ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ہیں جو کم عمری سے بچوں کو سکھائی جاسکتی ہیں۔ بچے والدین کے ساتھ لگے رہنا پسند کرتے ہیں ان کے لیئے سب کھیل ہوتا ہے تو کیا برا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام ان کے لیے کھیل بنا دیں۔ اپنے دھلے کپڑے اپنے خانے میں رکھنا یہ 3 سال کا بچہ بھی کھیل کھیل میں کرسکتا ہے طے کر کے نہیں رکھے گا مگر والدین کی مدد سے کچھ ہی عرصے میں کچھ نہ کچھ بہتری آتی جائے گی۔ کھانا کھا کر اپنی پلیٹ خود اٹھا کر رکھ آنا ساتھ ہی دھو دیناسکھایا جا سکتا ہے۔ تین سے چار سال کا بچہ/بچی اپنی پلیٹ اٹھا کر رکھ سکتا ہے 6 سے 7 سال میں دھو بھی سکتا ہے۔ کچھ کھا کر اس کے چھلکے ڈسٹ بن میں پھینکنا۔ یہ سب وہ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ہیں جو بچے کھیل کھیل میں کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں، مگر ہم غلطی کے ڈر سے انہیں ان چیزوں میں گھسنے نہیں دیتے یا پھر ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ہم بچوں کو موقع دیں کہ وہ اپنی چھوٹے چھوٹے سے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ نئے کام سیکھ سکیں۔
بچوں کی غلطی سدھارنے میں مدد نہ کرنا بلکہ ان سے ذمہ داری چھین لینا یا بار بار تذلیل کرنا انہیں غیر ذمہ دار بنانے میں اہم غلطی ہے۔ کوئی بھی کام سیکھنے کے لیئے اسے بار بار کرنا غلط کرنا پھر صحیح کرنے کا طریقہ سیکھنا اہم ہے۔ آج کے تجربہ کار کل اسی جگہ تھے جس جگہ آج کے ناتجربہ کار ہیں سب نے اپنی کم عمری میں اپنے والدین سے لاپرواہی کے، غیرذمہ داری اور سستی کے طعنے سنے مگر جب ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت پڑی تو تجربہ کار بھی بن گئے مگر جو نامناسب رویہ سہا اس کا اثر ان کی شخصیت پہ ہمیشہ کے لیئے چھاپ بن گیا۔ دوسرے کو غلطی کی گنجائش نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو آپ کی غلطی پہ معاف نہیں کیا گیا۔
بنیادی فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے کہ ہم دوسرے کو بھی اسی ذہنی تکلیف سے گزاریں جس سے خود گزرے یا پھر اسے مثبت طریقے سے سیکھنے میں مدد کریں تاکہ وہ کسی ذہنی کرب کا شکار نہ ہو۔ آپس کی بات ہے دوسرا طریقہ ہی ذہنی صحت مندی کی علامت ہے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]
Very informative article…..very nice absar. Welldone