کالم نگار،طیبہ عنصر مغل
رمضان جو کہ الله تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسا مہینہ بخشا کہ جس میں ہم اپنے گناہوں کو بخشوا کر پاک و معطر ہو سکتے ہیں کتنا بڑا انعام بنا دیا اس ماہ مبارک کو ہمارے لیے کہ ہم اپنا تزکیہ نفس کر لیں اب تزکیہ نفس کیا ہے ،تزکیہ نفس ہے ہر اس بات سے اجتناب برتنا جس سے قرآن وسنت کی نفی ہو ،جھوٹ بولنا ،گالی دینا ،غیبت کرنا،دل دکھانا ،کسی پہ ہاتھ اٹھانا اور بےحیائی پھیلانا اور بےحیائی کی باتوں سے رک جانا اور دیگر چھوٹے بڑے ایسے کاموں سے رک جانا جو گناہ ہوں یہی نہیں بلکہ
روزے کا ایک بڑا مقصد علماء کرام اپنی خواہشات پر کنٹرول بتاتے ہیں… ناجائزہی نہیں جائز خواہشات پر بھی… مگر پچھلے کچھ برس سے ایک گھٹیا تماشا رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے ایسا شروع ہو گیا ہے کہ دن بھرعوام روزہ رکھ کر نفس پر کنٹرول کرنے کی مشق کرتے ہیں اور افطار کے بعد رمضان بازاری شو کے ذریعے اپنی سفلی خواہشات کو اتنا بے لگام کرتے ہیں کہ
اس کے لیے اپنی دینی اقدار ہی نہیں مشرقی روایات و اقدار کا جنازہ بھی دھوم سے ساری دنیا کے سامنے نکالتے ہیں۔
یہ سوچے بغیر کہ پوری دنیا میں یہ تماشا ہر رنگ ونسل ومذاہب کے لوگ دیکھ رہے ہیں حد سے گزرنے والے مسلمان اپنی جہالت کا مظاہرہ سر عام کر رہے ہوتے ہیں ان پروگرامز کے ہوسٹ بھی اپنی قوم کی جہالت کا مزہ لیتے ہیں کہ دیکھو ہماری قوم کو تو ہارے نبی کے والد کا نام نہیں پتہ ہوتا اور پھر نعرہ لگانے والا ہوسٹ ریٹنگ کے لیے ،تّکا لگاؤمسلمانو ،اسطرح کہتا ہے کہ جیسے وہ خود تو مسلمان ہی نہیں اور لالچ عروج پہ ہوتا ہے ملاحظہ فرمائیں
بیویاں لائیو اپنے شوہر کے منہ کولال ،نیلا،پیلاکرتی ہیں…مرد گنجے ہوتے ہوئے تماشہ بن کر لوگوں کی تفریح کا سامان کرتے ہیں…شوہر ہو یا بیوی ایک دوسرے کی والدہ کی شان میں ہنس ہنس کر گستاخی کرتے ہیں…اور یہ لالچ میں ہوتا ہے شہرت کے لیے ہوتا ہے
ایک مائیکرو اوون، ایک موبائل اور ایک بائک لینے کے لیے…اپنی عزت نفس کو لوگ داؤ پہ لگاتے ہیں ،اپنی بہو ،بہن ،بیٹیوں کو موٹر سائیکل پہ غیر محرم کے ساتھ مزے سے بٹھا دیتے ہیں اور فخر سے سیلفیاں بناتے ہیں
ان مادی اشیاء کے لیے مرد و زن کی بےحیائی کے ایسےشرمناک مناظر نشر ہوتے ہیں مانو شرافت کے تو جنازے اٹھا دیتے ہیں ،کیا رمضان یہ سبق دیتا ہے ہمیں ،بھکاری بناتے ہیں اور ہم بخوشی بھکاری بنے کہتے نظر آتے ہیں ،، بھائی ایک مجھے بھی دو ناں، ایک ادھر پھینکو ناں پلیز…”
ایک بزرگ عورت جو چل چلاؤ کی عمر میں ہیں لال پیلے جوڑے میں خوشامدی تاثرات لاتے ہوئے بڑے مسکین سے لہجے میں التجا کرتی اور اپنے بیٹے کے لیے بائیک مانگتی پھرتی ہیں ،کیا یہ ہیں روزے دار جو تراويح کے وقت میں پروردگار کی بارگاہ میں سوالی بننے کے بجائے بھکاری بنے کسی شو میں بیٹھے ہیں
حیا کی موت دیکھنی ہے تو وہ دیکھیے ایک لڑکی چند ہزار کے گفٹ کے لئے پانی کی گینديں کھا رہی ہے یا شوہر پہ نشانے لگا رہی ہے اب اس بھیگے لباس میں کہاں سے آئے گا پردہ کبھی منہ میں بیگم انڈہ لیے اور اس کا شوہر منہ میں آم دبائےکھڑا ہوا ہے… کس لیے؟… دس پانچ ہزارکے گفٹ کے لیے!
ذلت کی انتہا دیکھنا چاہو تو ان عورتوں کو دیکھ لو جنہیں مرغے کی آواز ککڑوں کوں مسلسل نکالتے ہوئے اسٹیج کے گول دائرے میں تیز تیز سائیکل چلانا ہے… جانتے ہیں کس لیے؟
اس لیے کہ سونے کا وہ چمکتا زیور پا سکیں جو عورت پن کی تذلیل پر نوحہ کناں ہے!اور اگلے جہان کے لیے یہ تپتے ہوئے طوق اور بیڑیاں پانے کے لیے باولی بنی عورتیں اور بےغیرتی کی حدوں سے گزرتے حضرات فخریہ ہر طرح کا وہ کام کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر سر بازار ان کی بيٹی ،بہو ،بہن یا بیوی کی طرف کوئی دیکھ بھی لے تو طے شدہ بات ہے کہ اس غیر کا سر پھاڑ ڈالیں یہاں خود بیٹھے ہوئے ہیں اور بیٹی کو بڑے ہی فخر سے اس تماشہ گاہ میں آگے کريں گے کس لیے ؟لڑکی ہے زیادہ رعایت ملے گی زیادہ باری مل سکتی ہے
یہ ہےاجتماعی عزت وقار کا جنازہ دور سے میزبان ہوا میں تحفے اچھال رہا ہے… ،عورتیں مرد ایک دوسرے پہ گر رہے ہیں ایسے کتوں کی طرح جھپٹ رہے ہیں جیسے ہڈی دیکھ لی ہو… مردوں کی قمیص پھٹ رہی ہے اورعورتیں نیم عریاں ہو رہی ہیں بند قبا کھل رہی ہیں،بوڑھے ،جوان ،داڑھی والے ،بغیر داڑھی کے سب ایک جیسی بھوک کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں مگر کسے پروا ہے؟… کسی طرح کچھ تو حاصل ہو گا نا!… یہ سب دیکھ کر میزبان کے چہرے پر رعونت آمیز مسکراہٹ رینگنے لگتی ہے…اور میزبان کون ہیں کبھی غور کریں دن بھر جو ہمیں اسلام سکھانے آگئے ان کی ذاتی زندگی میں اسلام کہاں ہے پورا سال جو ترغیب گناہ دیتے رہے اب بیٹھے ہیں لمبے چوڑے معاوضے کے عوض اسلام سکھانے،یہاں برقعے اوڑھنے والی ہیں یا بنا دوپٹے کے سب ایک جیسی بے غیرتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں کوئی تفاوت نہیں ہے
ادھر پروگرام کے مہمان خصوصی حضرات جو بے شک عالم بے عمل ہیں ، بڑی ادا سےشوق فرما رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے پر مطمئن مسکراہٹ اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ ان کی بھینٹ چڑھائے جانے والا، ان کے حصے کا راتب ان تک پہنچ چکا ہے!
ارے دین کی بات تو چھوڑئیے… کیا اس سب بازاری پن کا ہماری خودداری وقار اور شرافت کی مظہر مشرقی اقدارو روایات سے ذرا بھی تعلق ہے ،سوچیں کہ چند برس پہلے والا شاندار رمضان اس کی حرمت و پاکیزگی کہاں گئ ،کہاں ہم بھول گئے کہ یہ مہینہ سال بھر سے زیادہ عبادتوں کا حکم لے کر آتا تھا تو مرد مسجدوں میں اور خواتین ،چاشت ،اشراق،تہجد،نوافل،تلاوت ،صلواۃ التسبیح کا اہتمام کرتی تھیں رو رو کر الله تعالیٰ کو منایا جاتا تھا اب یہ کون لوگ ہیں جو بھٹکا رہے ہیں بہکا رہے ہیں ،خدارا سنبھل جائیں اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ان شیطانی کاموں سے باز آجائیں اپنے اعمال کو الله تبارک وتعالیٰ کے ساتھ جوڑ ديں لوٹ آئیں ،الله کے لیے لوٹ آئیں صراط المستقیم کی طرف ،جنت میں بہت انعامات ہیں جن کا وعدہ ہے جہاں ہمیشہ رہنا ہے اس جنت کے لیے سر بسجود ہوں ،دامن پھیلائیں الله تعالیٰ کی رضا کے لیے بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے ،لوٹ پڑو خدارا ،اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے