ایک اور بیقصور بیٹی

تحریر:- جنید فرید

زینب کے بعد ایک اور بے قصور قوم کی نازک کھلی آسمہ کی لاش گوجرگڑھی مردان میں ملی جو گھر سےصبح غائب ہوکر نزدیک کی کھیت ميں تشدد کی حالت میں برآمد ہوئی، اب مزمت کون کريگا، جنازہ کس نے پڑھایا، اسمبلی میں تقریر کون کریگا، والدین سے ملنے کون جائیگا، قوم سے خطاب کون کریگا، ؟

کیا ہمارے لیڈران ایسے واقعات پر بھی  سیاست کروا رہے ہیں ؟

یہ احساس انکو تب ہوگا اگر اپنے جگر کے ٹکڑے کیساتھ ایسا ہوجاۓ توپھر ہم دیکھے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ؟

واقعات رفتہ برفتہ تیز اور کثرت سے ہوتے جارہے  ہیں، حفاظتی ادارے ناکام دکھائی دےرہےہیں، میڈیا لوگوں کی رجحان اس دلدل کی طرف کروارہے ہیں، بین الاقوامی  سطح پر ہم ذلیل ہوتے جارہے ہیں، لیکن اب تک حکومت نے کوئی ٹوس قدم نہیں اٌٹھایا۔



ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا صاحب بتارہےتھے کہ اگر زینب کے قاتل کا جس کسی نے بھی اطلاع کی وہ انعام حاصل کریگا، میں یہ سوچھ رہا ہوں کہ ملک کے حفاظتی اداروں پر اتنے خرچے پھر کیوں ہورہے ہیں کہ وہ ایک معصوم بچی کے قاتل کو نہیں ڈھونڈ پاتے، وہ اپنے ملک میں کسی کو نہیں پکڑسکتے اور اگر کر سکتے ہے تو عوام کو کر کہ دکھا دے کہ مجرم کو کیسے پکڑتے ہے اور کیسی سزا دی جاتی ہے تاکہ وحشی درندے دیکھے اور انکی روحیں خوف کے مارے کھانپ جائیں اور دیکھ کر آئندہ کیلۓ توبہ کرلے،، ہمارے ملک میں اس قسم کے جرم کیلۓایسی سزا اعلی حکام مقرر کریں کہ بچہ بچہ سبق آموز ہوجاۓ اور ساری عمر وہ سزا یاد رہے ، تاکہ آنے والے عمر میں وہ اس قسم گھناونا کام کے بارے میں سوچھے بھی نہ۔



اور دوسری طرف لوگوں کو لبرلزم کی طرف مائل کیا جارہاہے، کہ نصاب میں بھی سیکس کے متعلق بچوں کو پڑھایا جاۓ اس پر بھی مختلف لوگ ، میڈیا اور کچھ NGOs لگے ہوۓ ہیں کہ بے شرمی، بے حیائی کو ملک میں کیسے عام کیا جاۓ کہ باعزت لوگ اپنے ثقافت کو بھول جاۓ اور وسٹرن کلچر کو اپناۓ، جس میں ہر بے حیائی کا کھلم کھلا اجازت ہو، والدین اوربڑوں کا ادب واحترام نہ ہو، اٌستاد سے گفتگو کرنے کا سلیقہ نہ ہو۔

اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس قسم کے واقعات کم نہ اور تیزی سے بڑھتے چلے جائنگے، کیونکہ اگر کوئی شخص اپنے گھروالوں ماں، باپ، بھائی ، بہن کا احترام نہ کرے تو وہ گھر کے باہر بڑوں کا کیا خاک عزت کریگا، وہ خاک کسی کے عزت کو اچھی نذر سے دیکھےگا، وہ ہر جگہ ہر وقت فحاشی کے بارے میں سوچھےگا اور کرنے کی کوشش کریگا، جس سے معاشرے میں امن اور سکون ختم ہوجائیگا، اور ہر شخص کو اپنے بچوں کاہرلمحہ فکر رہیگا کہ بچے کو باہر جانے دے یا نہ دے ، سکول جانے دے یا نہیں ؟

اگر معاشرہ اس نازک حالت کی نوک پر کھڑا ہوا تو پھر ہم پچھتائنگے لیکن ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں رہیگا، پھر ہم سب خود ایسے واقعات پر مذمت کرتےرہینگے۔

التجا ہے سب سے کہ آواز اٌٹھاؤ اپنے حق کیلۓ اپنے زینب اور آسمہ کیلۓ ، کیونکہ کل آپکے گھر میں بھی زینب اور آسمہ جیسی نازک کھلی پیدا ہوسکتی ہے تاکہ ان کو ایسے دلدل میں جنم نہ لیں۔

شکریہ

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *