عبدالوحید
پاکستان کو 1973ء کا متفقہ آئین دینے والے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیاکہ ان کی مقبولیت کاسورج نصف النہار پر ہے تو انہوں نے قبل از وقت عام انتخابات کا ڈول ڈال دیا ا س کے ساتھ ہی راتوں رات ایک اتحاد معرض وجود میں آگیا جو کسی بھی تجزیہ نگار کی کسی بھی حس میں نہیں تھا یہ اتحا د 5جنوری1977کو پاکستان قومی اتحاد کے نام سے سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہوا اس میں جو نو پارٹیاں شامل تھیں ان میں تحریک استقلال، مسلم لیگ (پیر پگارہ)،جماعت اسلامی ،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (سابقہ نیشنل عوامی پارٹی اور موجودہ عوامی نیشنل پارٹی ،پاکستان جمہوری پارٹی ،جمعیت علمائے اسلام،جمیعت علمائے پاکستان،خاکسارتحریک (ایک پارٹی کا نام یاد نہیں آرہا)
ان پارٹیوں کے درمیان تضادات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اگر اسلام کے حوالہ سے دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کے خلاف اسلام کے ہی حوالہ سے جمعیت علمائے پاکستان کافی دوری پر رہتی تھی ،اسی طرح جمعیت علمائے اسلام سے دوری کی یہ حالت تھی کہ جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی سربراہ نے ایک دیوبندی مسجدمیں امامت تک کرنے سے گریزکیا تھا جس کی دعوت بھرے جلسہ میں جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی راہنمانے دی تھی خاکسار تحریک تینوں متذکرہ جماعتوں سے الگ سے ہی غلبہ اسلام کی دعویدارتھی
نواب زادہ نصراللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی دیگر پارٹیوں کی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کی حامی تو نہ تھی لیکن اس میں بائیں بازو کا رجحان بھی نہ تھا
تحریک استقلال نے سب سے الگ ہی اپنا نقطہ نظر رکھتی تھی تاہم اس میں ایسے لوگوں کی بڑی تعدادشامل تھی جو آج بھی سیاست کے آسمان پر نمایاں ہیں ان میں ایک نام میاں نوازشریف کو بھی تھا
مسلم لیگ کے سربراہ پیر آف پگارو جماعت اسلامی کے خلاف بیان بازی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بائیں باز و کی سیاسی جماعت تھی جس میں ولی خان کی قید اور گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان پارٹی میں اہم رول ادا کررہی تھی
یہ سیاسی جماعتیں مختلف الخیال ہی نہیں بلکہ متضاد سیاسی رجحانات کی بھی حامل تھیں لیکن پیپلز پارٹی کی مقبولیت سے خوف زدہ ایک پلیٹ فارم پر پاکستان قومی اتحاد کے نام پر متحد ہوگئی تھیں مارچ 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے مشرکہ انتخابی نشان ہل الاٹ کرایا جب کی اس وقت پی پی پی کا انتخابی نشان تلوار تھا
قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو 155نشستوں پر کامیابی ملی جب کہ قومی اتحاد کے امیدوار 36سیٹوں پر کامیاب قرارپائے پاکستان قومی اتحاد نے نتائج کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا اور صوبائی اسمبلیوں کی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا (اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن نہیں ہوتے تھے )
بعد ازاں پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی اور از سر نو انتخابات کا مطالبہ کر دیا تحریک میں جان نہیں تھی تو نفاذ نظام مصطفی کا نعرہ بلند کرنا پڑا جس کی وجہ سے عوام سڑکوں پر آگئے اور پاکستان قومی اتحاد کو بھر پور ساتھ دیا
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ یہ رہاہے کہ اسلام نافذ کریں گے پاکستان خطرے میں ہے جیسے نعرے لگا کر عوام کوسیاسی گرداب میں چھوڑ دیا جاتا ہے ایسا 1977ء ہی میں نہیں ہوا اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ہوتا رہا ہے ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے الگ کر دئے گئے مرز ا غالب کے الفاظ میں جرنیلی بندوبست نافذ ہوگیا تو 24جنوری 1978کو پاکستان قومی اتحاد کا نام بھی سیاسی منظر نامے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا
اب جب کہ 2018ء کے انتخابات منعقد ہونے جار ہے ہیں مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کوبحال کرنے کا اہتمام کر لیا ہے مال روڈ پر 41سیاسی جماعتوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤ ن کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون پنجا ب سے استعفیٰ مانگ لیا ہے اس جلسہ میں ابھی تک 1977ء جیسا اتحاد نظر نہیں آیا تاہم مسلم لیگ ن کوشکست دینے کے لئے اتحاد قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکاہے ماہ رواں میں ہی واضع ہوجائے گا کہ
کیا 1977ہونے والا ہے یہ کوئی اور صور ت گری کا اہتمام ہوچاہتا ہے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]