گوجرانواله کے ایک دیہات میں،
ایک غرِیب شخص مسجِد کے غُسلخانہ میں نہانے گیا تو،
اُسے غُسلخانہ کی دِیوار پر رقم پڑی نظر آئ،
اُس نے وہ رقم اُٹھائ اور نہائے بغیر گھر لَوٹ آیا،
گھر آکر پیسے گِنے تو
پُورے پچاس ہزار روپے تھے،
اُس شخص نے وہ رقم اپنے صندوق میں رکھے اور پِھر نہانے کی غرض سے مسجِد گیا،
تو دیکھا کہ مسجِد میں کچھ لوگ اور گاؤں کا نمبردار موجود ھیں،
پوچھنے پر معلُوم ھُوا کہ نمبردار کے پیسے (پچاس ہزار) یہاں گُم ھو گئے ھیں،
اُس شخص کے بقول،
میرے دِل میں بے اِیمانی نے سَر اُٹھایا،
پِھر اِک خیال نے مجھے کچوکا دِیا کہ،
اِن پیسوں پر تُمہارا کوئ حقّ نہیں،
اِسی کشمکش میں وہ آدمی گھر گیا اور صندوق سے پیسے نِکال کر، نمبردار کو دے دِئیے،
اںس واقع کے بعد،
کُچھ عرصہ بعد وُھی غریب شخص لاھور گیا، بقول اُس کے،
جب لاھور پہنچ کر بَس سےاُترا تو
میرے آگے ایک شخص اُتر رھا تھا، اُس کی جیب سے ایک سو روپیہ گِر گیا، میرے دِل میں بے اِیمانی آئ،
اور میں نے اُس سو روپے پر پاؤں رکھ دیا، کچھ دیر بعد،
جب وہ شخص نظروں سے اوجھل ھُوا تو میں نے سع روپے اُٹھائے،
اور اپنی جیب میں ڈال کر اپنی راہ کو ھو لِیا،
ابھی میں اڈہ ھی میں تھا کہ ایک چاۓ کی دکان دیکھ کر،
مجھے چاۓ کی طلب ھُوئ،
میں چاۓ پینے بیٹھا تو دیکھا کہ اِک پریشان حال شخص زمین پر نظریں گاڑھے اِدھر اُدھر کُچھ ڈھونڈ رھا ھے،
میرے چاۓ پی لینے تک وہ شخص کبھی اِدھر، کبھی اُدھر آتا جاتا رھا،
مجھے فوراً اِک خیال آیا کہ یہ وہی شخص ھے جِس کی جیب سے سو روپے گِرے تھے،
جو میں نے اُٹھا لِئیے تھے، میں نے اُس شخص کو بُلا کر پوچھا،
تو اُس نے بتایا کہ میں نے فلاں جگہ جانا ھے، میرے جیب سے سو روپے گِر گۓ ھیں، اب میرے پاس کچھ نہیں بچا،
پریشان ھوں کہ کیا کروں،
میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ پچاس ہزار روپے پر ایمانداری،
اور سو روپے پے بے اِیمانی،
میں نے ایک عجیب فیصلہ کِیا،
میں نے اپنی جُوتی اُتاری، اُس شخص کو دِی،
اور کہا کہ یہ جُوتا میرے سَر پر پانچ مرتبہ مارو تو میں تمہیں سو روپے دُوں گا،
وہ شخص تذبذب کا شکار ھُوا،
تب میں نے اُسے کہا کہ
یہ دِل پچاس ہزار روپے پر بے اِیمان نہ ھُوا،
لیکن
آج سو روپے پر بے اِیمان ھو گیا
لہٰذا اِس کی سزا یہی ھے کہ
مجھے پانچ جوتے مارو،
جب وہ شخص ایسا کرنے پر نہ مانا تو،
میں نے معافی مانگتے ھُوئے، اُسے سو روپے لوٹا دِئیے،
(سلام ھے اُس دیہاتی پر)
سبق،
کِسی کے حقّ پر، اپنا حقّ نہیں جتانا چاھیۓ۔
تحریر
اقبال احمد پسوال