رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کے متعلق سید نصیر احمدکی کتاب کا عالمی اعزاز

تحریر: سہیل احمدصدیقی
زیرنظر کتاب کا عنوان سرورق پر(بجائے’’ پنڈت رام بسمل اور اشفاق اللہ خان۔ہندومسلم اتحاد ویک جہتی کی زندہ مثال‘‘کے)’’ پنڈت رام پراساد بسمل اور اشفاق اللہ خان۔ہندومسلم اتحاد ویک جہتی کی زندہ مثال‘‘ درج ہے جو ظاہر ہے کہ فاضل مترجم ابوالفوزان کی( تیلگو سے واقفیت کے باوجود )،دیوناگری کے اردو املاء سے ناواقفیت پردلالت کرتاہے۔بہرحال اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ کتاب تیلگو کے نامور مسلم مؤرخ محترم سید نصیر احمد کی اُن مسلسل مساعی کا حصہ ہے جو وہ تاریخ آزادی ہند کے مشاہیر کے حالات جمع کرنے اور اس کی حتیٰ الوسع تشہیر کرنے کی غرض سے گزشتہ کئی سالوں سے کررہے ہیں۔اُن کی تازہ ترین کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جسے ناصرف ہندوستان میں ، بلکہ دیگرممالک میں بھی پزیرائی مل رہی ہے۔انتہائی نامساعد حالات میں اپنے محدودوسائل استعمال کرتے ہوئے سید نصیر احمدنے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر عزم پختہ ہو تو راستے کی رکاوٹیں خودبخو د کم ہوتی جاتی ہیں اور راہ مسدود ہونے کا خوف دل سے نکال کرکام کیا جائے تو ایک دن آپ کا کام ہی آپ کی عالمگیر شناخت بن جاتا ہے۔ سید نصیر احمدہندوستان میں مقیم بے شمار اہل قلم کے درمیان اس لحاظ سے نہایت منفردہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہی فقط ایک موضوع یعنی’’ تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں کا کردار‘‘ بنالیاہے۔ایک طویل مدت تک تن تنہا یہ خدمت انجام دینے کے بعد اَب امیدہوچلی ہے کہ انھیں بعض مخیر حضرات کا تعاو ن و اشتراک بھی جلد حاصل ہوجائے گا۔انیس دسمبرسن دوہزارسترہ کو اُن کی یہ نئی کتاب بہ یک وقت چار زبانوں میں ہندوستان کے بہت سے شہروں میں منظر عام پر آئی ، جبکہ کویت میں اسی دن کڑپہ اسلامک ویلفئیر سوسائٹی کے زیرا ہتمام اور پھر بارہ جنوری سن دوہزار اٹھارہ کو رائے چوٹی ویلفئیر ایسوسی ایشن کے زیرا ہتمام بھی اس کی تقریب اجراء منعقد کی گئی۔اس منفرد کتاب کی بہ یک وقت ایک سواٹھاون مقامات پر تقریب اجراء کا انعقاد بجائے خود ایک منفرد عالمی ریکارڈ ہے۔



پنڈت رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی قایم کردہ،ہندو۔مسلم یک جہتی کی اس مثال کے پیش نظر،نامور مؤرخ سید نصیر احمد نے اپنی کتاب رقم کرنے کا آغاز کیا۔سن دوہزار پندرہ میں انھوں نے اپنی مادری زبان تیلگو میں ’بسمل۔اشفاق‘ کے عنوان سے یہ کتاب شایع کی جو انیس دسمبر کو اِن دونوں کی برسی کے موقع پر نوے (۹۰) سے زاید شہروں میں بہ یک وقت منظر عام پر لاکے عالمی ریکارڈ قایم کیا گیا۔ منتظمین کو پچپن (۵۵) مقامات سے تقاریب اجراء کی تصاویر موصول ہوئیں جن کی فروری دوہزار سولہ میں تشہیر بھی کی گئی۔اب یہی کتاب ’پنڈت رام پرساد بسمل۔اشفاق اللہ خان‘ کے عنوان سے دوبارہ شایع کی گئی ہے۔منتظمین نے ا نیس دسمبردوہزار سترہ کو تیلگو بولنے والی دوہندوستانی ریاستوں(صوبوں) کے عوام کے لیے تحفے کے طورپر اشاعت کے لیے پیش کیا۔دیگر زبانیں بولنے والی ریاستوں کے عوام کے لیے، اس کتاب کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ بنایاگیا۔یہ خیال فیس بک کے توسط سے احباب ومتعلقین کے روبرو رکھا گیا جنھوں نے اسے خوب سراہا۔چنانچہ اس کتاب کی بہ یک وقت تیلگو، اردو، انگریزی اور ہندی میں اشاعت انیس دسمبر دوہزارسترہ کو عمل میں آئی اور دل چسپی لینے والے قارئین نیز کتب خانوں میں مفت تقسیم کا انتظام کیا گیا۔اس شاندارکتاب کا انگریزی ترجمہ کرنے کے لیے ایک فاضل استاد ، سری بھُوَناگِری وینکٹ کرشن پورناندم نے اپنی خدمات پیش کیں اور یہ قابل قدرکارنامہ انجام دیا۔ موصوف گنٹور کے گورنمنٹ جونئیر کالج برائے طالبات میں انگریزی کے لیکچررہیں۔
ناواقفین کی اطلاع کے لیے ہم ان دوشخصیات کااحوال نقل کرتے ہیں جن کے متعلق کتاب نے دھوم مچائی ہوئی ہے۔شمع آزادی کے یہ دونوں پروانے شاہجہاں پور، اُترپردیش (ہندوستان) میں پیداہوئے اور ایک ہی درس گاہ سے تعلیم پائی جس کا نام تھا:
Abbie Rich Mission High School
۔بچپن ہی سے باغیانہ سوچ دونوں کے ذہن میں پروان چڑھتی رہی اور اسکول کے دور میں انھوں
نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔جب گاندھی جی نے چوراچوری کے واقعے کے فوری بعدتحریک عدم۔تعاون/تحریک ترک موالات ختم کرنے کا اعلان کیا تو بسمل اور اشفاق کو یہ اقدام بہت برا لگا اورانھوں نے انگریز سرکار کے خلاف مسلح جدوجہدکا راستہ اختیار کرلیا۔ہرچند رام پرساد بسمل آریہ سماج سے تعلق رکھتے تھے، مگر اشفاق شہید کی ان سے دوستی مثالی ثابت ہوئی۔وہ ہندوستان ری پبلک ایسوسی ایشن میں شامل ہوگئے اور انھوں نے اس انقلابی تحریک میں نمایاں کردارادا کیا۔آٹھ اگست ،سن انیس سو پچیس کوہندوستان ری پبلک ایسوسی ایشن نے بسمل کی سربراہی میں ایک خفیہ اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ تحریک کو درکار سرمایہ حاصل کرنے کے لیے سرکاری خزانہ لوٹا جائے ، چنانچہ اگلے دن ،نواگست کو اُن کے ایک دس رکنی جتھے نے کاکوری میں سہارن پورسے لکھنؤ جانے والی ۸۔ڈاؤن پیسنجر ٹرین کا سرکاری خزانہ لوٹ لیا۔ ٹرین کے اس ڈاکے نے برطانوی حکام کو ہلا کررکھ دیا۔بسمل کی قیادت میں ہونے والے اس ’کارنامے‘ میں اشفاق سمیت متعدد افراد کا ہاتھ تھا۔اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک ماہر نے بہت سرعت سے اس ڈاکے میں ملوث افراد کا سراغ لگالیا اور ان سب کو شاہجہاں پور سے گرفتار کرلیا گیا، ماسوائے محمد اشفاق اللہ خان کے، جو بچ کر نکلے اور بنارس پہنچ کر ایک انجنئیرنگ کمپنی میں ملازم ہوگئے۔انھوں نے آزادی پسند ہندو رہنما لالہ ہردیال سے ملاقات کے لیے امریکا کا قصد کیا ،مگر انھیں انھی کے ایک دوست کی مخبری پر دہلی سے گرفتارکرکے فیض آباد جیل بھیج دیا گیا جہاں انھیں بسمل، راجندرلہری اور ٹھاکرروشن سنگھ کے ساتھ انیس دسمبر سن انیس سو ستائیس کو پھانسی دے دی گئی۔دیگر مجرموں کو عمر قید اور دیگر سزائیں دی گئیں۔شہید اشفاق پابند صوم و صلوٰۃ اور شاعر تھے ۔ انھوں نے شاعری میں وارثی اور حسرت تخلص کیا۔ان کی یادگار بیاض میں بھی قوم کو دیا گیا،آزادی کے حصول کے لیے جدوجہدکا درس ملتاہے۔

سید نصیر احمد سے رابطے کے لیے:
Syed Naseer Ahamed
https://www.facebook.com/syed.n.ahamed
Whats App number: +919440241727
Email: naseerwriter2017@gmail.com
https://urdu.liverostrum.com/رام-پرساد-بسمل-اور-اشفاق-اللہ-خان-کے-متع/




Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *