راشد علی
امن، سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پر تشدد اختلافات کے چل رہے ہوں امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین انسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی، مساوت، اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیںبین الاقوامی تعلقات میں، امن کا دور اختلافات یا جنگ کی صورتحال کی غیر موجودگی سے تعبیر ہے امن بارے تحقیق اس کی غیر موجودگی یا تشدد کی وجوہات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ عمومی طور پر امن تباہ کرنے میں عدم تحفظ، سماجی بگاڑ، معاشی عدم مساوات، غیر متوازن سیاسی حالت، قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی بنیاد پرستی جیسے عوامل شامل ہوتے ہیںامن کی عمومی تعریف میں کئی معنی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں مجموعی طور پر امن کو تحفظ، بہتری، آزادی، دفاع، قسمت اور فلاح کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر امن سے مراد تشدد سے خالی ایک ایسی طرز زندگی کا تصور لیا جاتا ہے جس کی خصوصیات میں افراد کا ادب، انصاف اور عمدہ نیت مراد لی جاتی ہے۔معاشرے میں انفرادی طور پر امن کی حالت ہر فرد پر یکساں لاگو ہوتی ہے، جبکہ مجموعی طور پر کسی بھی خطے کا پورا معاشرہ مراد لیا جاتا ہے دنیا کی مختلف زبانوں میں لفظ امن یا سلامتی کو خوش آمدید یا الوداعی کلمات کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوائی زبان کا لفظ Aloha یا پھر عربی زبان کا لفظ سلام، امن یا سلامتی کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیںیہ الفاظ الوداعی یا خوش آمدیدی کلمات کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ انگریزی زبان میں PEACE کا لفظ الوداعی کلمات میں استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر مردہ افراد کے لیے ایک فقرہ استعمال ہوتا ہے جیسے، Rest in Peaceکہا جاتا ہے انسان فطرتاً امن پسند ہے اسلام کی تعلیمات امن ومحبت کا درس دیتی ہیں اسلام نے اپنے چاہنے والوں کو ایک پائیدار ضابطہ اخلاق پیش کیا جس کا نام اسلام رکھا یعنی دائمی امن وسکون والا مذہب یہ امتیاز کسی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں ہے اقوام عالم کی تاریخ میں کوئی ایسا صبروتحمل والی مثال دکھا سکتا ہے جس میں لاتثریب علیکم الیوم کا مثردہ سنایا گیا ہو یا کوئی ایسی مثال جس میں قیدیوں پرتشدد کی بجائے 10 بچوں کوپڑھانے پر آزادی کا پروانہ تھمانے کی نوید دی گئی ہو یا کوئی ایسی مثال کہ جس میں گرفتار گورنر کو ثمامہ بن اثال کی طرح اچھے انداز سے رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا ہو ، آج دنیا میں امن وامان کا جو رجحان پایا جاتاہے یہ اسلا م کا مرہون منت ہے، اسلام ظلم کوکسی حالت میں اور کسی بھی نام اور عنوان سے برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے فرزندوں کو جان، مال ومذہب، عقیدہ، وطن، مذہبی مقدسات، شعائر دین، مساجد ومعابد وغیرہ کی حفاظت، ان کے دفاع اور کسی بھی طرح کی تعدی سے ان کے بچاؤ کی تدبیر کرنے کا ناگزیر حکم دیتا ہے اور ان ساری سازشوں کو ناکام بنادینے کا انہیں پابند بناتا ہے جو خود ان کے خلاف کی جائیں یا انسانیت کے خلاف روبہ عمل لائی جائیں اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، بلکہ اس کے برعکس یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ اسلام دنیا میںآ یا ہی ہے ظلم وتشددکی بیخ کنی کے لیے ہے خواہ وہ کسی بھی سطح پر موجود ہو حدیث میں ہے جس نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی یا اس اللہ کو تکلیف پہنچائی ظاہر ہے کوئی بھی صاحب ایمان آنحضرت ؐ کے قول کی مخالفت نہیں کرسکتا حدیث بالا میں کسی مذہب وملت کی قید نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ ساری انسانیت پر محیط ہے یہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات میں امن وسلامتی کا عنصر زیادہ ہے، وہ تمام معاملات میں ان پہلوؤں کو اختیار کرنے پر زور زیادہ دیتا ہے جن میں نہ خود کوئی زحمت اٹھانی پڑے اور نہ دوسروں کو کوئی تکلیف ہو، اللہ تعالیٰ نے مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے وہ تسامح اور صلح جوئی کو ترجیح دیتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جبکہ فریق ثانی سے زیادتی اور جھگڑے کا اندیشہ ہو لاضرر ولاضرار اسلام کا وہ لائحہ عمل ہے، جس کی روشنی میں ممکنہ حد تک قوت اور اثرات کے ذریعہ مظلوم کی دستگیری کی جائے اور ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے۔ مظلوم کی حمایت میں حسب ذیل حدیث میں کسی قدر واضح ہدایت موجود ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ کی مدد کرے، اللہ تعالیٰ بہتر مغفرت کا انتظام فرماتا ہے دوسروں پر رحم نہ کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم رہتا ہے ،عام وخاص کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکومت کفر کے ساتھ چل سکتی ہے، ظلم کے ساتھ نہیں کیونکہ ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیںدنیا میں جب بھی مسلمانو ں کو حکمرانی کاشرف حاصل ہوا تو انہوں نے بلا تخصیص مذہب وملت رنگ ونسل ہر ایک کوایک آنکھ سے دیکھا اور کسی کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا مسلمانوں نے سپین پر آٹھ سوسال حکمرانی کی مگر شمشیر کا استعمال نہیں کیا صدیوںسے مسلمان عرب پر حکمرانی کررہے ہیں مگر کیا کوئی بتا سکتا کب اور کس وقت اور کہاں مسلم عرب ریاستوں نے خون ریزی کے لیے مہم جوئی کی جواب نفی میں ہوگا کہ کبھی نہیں کی برصغیر پر مسلمانوں نے طویل حکمرانی کی مگر کسی اقلیتی مذہب پر حملہ آوار نہیں ہوئے نریندر مودی کی طرح سانحہ گجرات رونما نہ ہوا،کبھی اقلیتوں پر چھرے نہیں چلائے گئے اگر مسلم حکمران ایسے گھنائونے اقدامات کرتے تو زمین ہند پر ایک ہندو بھی زندہ نہ ہوتا جو کثیر تعداد میں ہندوستا ن میں ظلم تشدد کو اپنائے ہوئے ہیں پوری مسلم تاریخ میں اسلامی جنگوں میں اتنے افراد مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں مارے گئے جتنے اکیلے بش نے مارے امریکہ تن تنہا لاکھوںمسلمانوں کا قاتل ہے 2کروڑسے بھی زیادہ مسلمان اس امن کے ٹھیکدار کی وجہ سے بے گھر ہوئے لاکھوں اپنے گھروں سے محروم ہوئے لاکھوں بچے اپنی زندگیا ں گنوا بیٹھے لاکھوں مائوںکی گودیں اجڑ گئیں درجنوں ریاستیں اس ناسور کے ہاتھوں اپنا نظم تباہ برباد کرواچکی مگر افسوس یہ اندھا بھینسا سنورنے سدھرنے کے لیے تیارنہیں ہے آزادی مذہب کا علمبردار مذہبی انتہاپسندی کی بھٹی میں سلگ رہا ہے نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند کرنے والا خود نسلی وعلاقائی نفرت کے بیج بورہاہے کبھی وقت ہواتوتمام کچاچٹھا بیان کرو ںگا مگر چونکہ طاہری القادری اورعمران خاں مع اپوزیشن مقتدر حکومت کو گرانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں چارسال سے لکن میٹی کھیلنے والی اپوزیشن نے عوام کا جینا دوبھر کررکھا ہے اپوزیشن اورحکومت دونوں کو عوام کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں ہے معاملہ کرسی اور فیصد کا ہے اقتدار کے حریص فیصد اورکرسی کے چکر میں عوام کو پریشان کررہے ہیں جوپہلے ہی ان سیاسی پنڈتوں کی نااہلیوں سے تنگ آچکی ہے دھرنا دھرنا کرنے والے بچیوں پر ہونے والے انسان دشمن مظالم کے خلاف کیوں نہیں دھرنا دیتے ،یہ ایسا نظام بنانے میں حکومت کی معاونت کیوں نہیں کرتے جس کے ذریعے ظلم وجبر اورانتہاپسند ی کو ختم کیا جاسکے ۔جنابان کومعلوم ہونا چاہیے کہ عوام نعروں اور دھرنوں سے اکتا چکے ہیں تبدیلی قول وفعل اورکردار کے سچے پن سے آئیگی دھرنوں اور تحریکوں سے نہیں یہ اُٹ پٹانگ امور تو اس سے ماقبل سب نے سرانجام دیے سب کا انجام سب ہی کومعلوم ہے بعض مجیب الرحمن بننا چاہتے ہیں تو بعض اردوگان لہذا ضروری ہے خام خیالی کی بجائے اپنی سمت درست کی جائے ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]