؎ آمنہ نثار راجہ
( ینگ ویمن رائٹر فورم ا سلام آباد )
شاہ زیب زوروشور سے گرج رہا تھا۔۔۔جیسے کوئی انہو نی ہو گئی ہو۔۔کبھی غصے سے کمرے کے اندر چکر لگاتا تو۔۔کبھی کمرے سے باہر۔۔۔اس کاغصہ کسی ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔۔چہرہ غصے سے سرخ۔۔۔۔ اور آنکھیں جیسے ابھی اٌبل کر باہر آجائیں گی۔۔۔
بس ۔۔۔
میں نے کہہ دیا۔۔۔۔
جیسے کوئی حتمی فیصلہ سنا رہا ہو۔۔۔۔
زہرہ اب کالج نہیں جائے گی۔۔۔تو۔۔۔بس نہیں جائے گی۔۔۔۔
بہت پڑھ لیا اس نے جو پڑھنا تھا۔۔۔۔اب کالج جانا بند۔۔۔۔
یہ ناک کٹوائے گی اس خاندان کی۔۔۔یہ بات میری غیرت گوارا نہیں کرتی۔۔۔۔
اس کی پڑھائی اس خاندان کی عزت سے بڑھ کر نہیں ہے۔۔۔۔۔
شاہ زیب کا غصہ کسی صورت ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔
شازیب کا جی چا رہا تھا کہ اسی وقت بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر دے۔۔۔یا۔۔زمین میں زندہ گاڑدے۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔
ماں تھی جو کبھی شاہ زیب کے پائوں پڑ جاتی تو۔۔کبھی ہاتھ پکڑ لیتی ۔۔۔۔روتی گڑگڑاتی بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔ وہ آوارہ لڑکا اس کا پیچھا کر رہا تھاآخر اس میں میری بیٹی کا کیا قصور ہے ؟؟
شاہ زیب غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے۔۔اگر اس کا قصور نہیں تو وہ لڑکا اس گھر کی دہلیز تک کیسے آن پہنچا۔۔۔؟؟؟
وہ اس کے کالج تک کیسے پہنچ گیا۔۔۔۔؟؟؟
اٌس کے پاس اس کا نمبرکیوںہے ؟؟؟؟
آپ کے پاس ان باتوں کا جواب ہے؟؟؟ بتائیں مجھے۔۔۔۔اگر آپ کی لاڈلی بے قصور ہے تو۔۔۔
یہ سوال جواب اس لڑکے سے کرو۔۔اس میں زہرہ کا کیا قصور۔۔۔۔
زہرہ کا قصور ہے تو یہ۔۔۔کہ۔۔۔وہ عورت ہے۔عورت ہونا زہرہ کا قصور ٹھہرا۔۔۔۔۔ اور آنسوؤں نے بات مکمل نہ کرنے دی۔۔۔۔۔
زہرہ اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہتی تھی ۔۔۔مگر۔۔۔ لفظ تو جیسے گونگے ہو گئے۔۔۔ ہونٹ سِل گئے۔۔۔۔اور زبان ساتھ دینے سے قاصر ہو گئی ۔۔۔۔زہرہ کو اپنا وجود کسی گہری کھائی میں گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ایسی کھائی جس میں روشنی کی کوئی کرن موجود نہیں ۔۔۔ اور ہی کوئی راستہ دور تک نظر نہیں آتا ۔۔۔اور سانسیںجیسے پل بھر کی مہمان ہوں۔۔ ۔۔
ماں کی ممتا نے زہرہ کی زندگی تو بچا لی ۔۔مگر۔۔۔ تعلیم حاصل کرنے کا خواب زہرہ کاخواب ہی رہ گیا۔
اور وہ اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں اور بکھرے وجود کو سمیٹتے ہوئے گھر کی چاردیواری میں قید ہو کے رہ گئی ۔
بدلتے شب وروز کے ساتھ یہی سوچتی میں اس چار دیواری کوخود کی محافظ سمجھوں یا خوابوں کی قاتل ؟؟؟؟ ۔۔۔۔
آخر مجھے سزا کس بات کی ملی۔۔میں نام تک نہیں جانتی تھی اٌس لڑکے کا جس کی وجہ سے زندگی مجھ پہ اتنی تنگ کر دی گی ۔۔۔سب کا اعتبار اٹھ گیا۔ ۔۔ ۔
شاہ زیب نے تو۔۔چیخ چیخ کر زہرہ سے سوال کیے تھے۔۔۔مگر۔۔۔زہرہ ان سوالوںکے جوابات کس سے مانگتی۔۔۔
اٌس لڑکے سے؟؟؟
معاشرے سے؟؟ْ؟
یا خود سے؟؟؟
ہرروز چڑھتے سورج کے ساتھ وہ انہی سوالات کے جوابات کی کھوج میں رہتی۔۔۔اور۔۔۔ڈوبتے سورج کے ساتھ اٌس کی امید کے دیے بھی ڈگمگانے لگتے۔۔۔
ادھورے خوابوں کے ساتھ تلخ ہی سہی مگر۔۔زندگی کا سفر رواں دواں تھا۔۔۔
پھر ۔۔۔
ایک شام پریشانی کے عالم میںسب کی منتظر نگاہیںدروازے پر جمی ہوئیں تھیں۔۔شازیب صبح کا گیا ہوا ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔۔۔انتظار کی اسی کشمکش میں دوروز بیت گئے۔۔۔تیسرے روزرات کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔دستک کی آواز پر سب چونک گئے۔۔۔اور سب کے اداس مرجھائے ہوئے چہرے اس امید کے سا تھ یک دم چمک اٌٹھے ۔۔کہ دستک دینے والا شاہ زیب ہو گا۔۔۔سب کی منتظر نگاہوں میں خوشی کا تاثر اٌس وقت غصے اور نفرت میں بدل گیا۔۔۔جب شاہ زیب کے ساتھ ایک لڑکی کو کھڑے پایا۔۔۔
جسے وہ بھگا کر لایا۔۔۔اور کوٹ میرج کر لی۔
اٌس لمحے زہرہ کو اپنی سماعتوں اور بصارت پر یقین لانا مشکل ہو گیا۔۔۔کیا یہ وہی انسان ہے؟؟؟
جس نے غیرت اور خاندان کی عزت وقارکی خاطر اس سے تعلیم کا حق۔۔معاشرے میں سر اٌٹھا کر جینے کا حق تک چھین لیا۔
کچھ دن سب گھر والوں نے غصے اورنارا ضگی کا اظہار کیا ۔۔۔اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے اپنا لیا گیا۔۔۔
مگر۔۔۔
زہرہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوگئی۔۔۔اسے شدید نفرت محسوس ہوئی۔۔خود سے۔۔۔خودسے جڑے ہر
رشتے ۔۔۔ اور معاشرے کے دوہرے معیار سے۔۔۔
زہرہ نے چاہاکہ پوچھے شاہ زیب سے کیا اب خاندان کی رسوائی نہیں ہوگی؟؟؟
اب خاندان کی ناک نہیںکٹے گی کیا؟؟؟
خاندان کی عزت اورذ لت صرف عورت کے ساتھ منسلک ہے کیا؟؟؟
کیا یہ قانون صرف عورت پر لاگو ہوتا ہے کہ اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے؟؟؟
مرد کو یہ آزاد ی حاصل ہے کہ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زیب کے سوالوں پر سوالوں نے تو زہرہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا ۔۔۔۔جیسے وہ کوئی مجرم ہو ۔۔اور اٌس سے جرم سے متعلق تفتیش کی جا رہی ہو۔۔ ۔۔
مگر۔۔۔۔۔
زہرہ کو کہاں اجازت تھی کہ ۔۔۔۔وہ اپنے ذہن میں اٌٹھنے والے سوالوں کوزبان عطا کر سکے۔۔۔اسے تو اپنے سوالواں کو بھی دفنانا تھا ۔۔۔اپنے خوابوں کے ساتھ۔۔۔۔
ٓبہت برس بیت چکے ہیں پر زہرہ ٓٓ ٓٓٓ ۃۃۃ
ؓؓبہت برس بیت چکے ہیں پر سنا ہے زہرہ آ ج بھی پاگل خانے میں یہی گیت الاپتی ہے ۔۔۔ خاندان کی عزت ۔۔۔ میرے خواب ۔۔۔ میرے خواب ۔اور فصا میں زوردار قہقہ گونجنے لگتا۔۔۔
(ایم ایس اردو)
(اسلام آباد)
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][starlist][/starlist]
ماشاءاللہ – بہت ہی اچهی کوشش – معاشرتی مسائل اور عورت کے ارد گرد گهیرا تنگ کرنے والے جاہل لوگوں تک یہ اور اس قسم کے اور مضامین اور افسانے ضرور پہنچنے چاہیئے تا کہ ان کی عقل ٹهکانے پہ آئے