..ابوبکر قدوسی
ہم نہیں کہتے کہ آپ پھلجھڑیاں اور پٹاخے چھوڑنے شروع کر دیں – اور ایسا بھی نہیں کہ کوئی ان کو مغفور اور کوئی ان کے ایمان کا بھرا ہوا کاسہ لیے چلا آ رہا ہے –
ہم عام لوگ ہیں اور انسانوں کے ظاہر کے مکلف اور اس پر فیصلہ کرنے پر مجبور –
ہم بہت بھلکڑ ہیں ، کل کی بات بھول جاتے ہیں کوئی اسلام کے ساتھ کیا ہی کھلواڑ کرے ، مذھب کی کیسی بھی توہین کرے سب بھول جاتے ہیں اور اخلاقیات کے بهاشن دینا شروع کر دیتے ہیں – اس کے لیے اللہ کے رسول کا اسوہ بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں – لیکن جب یہی معاملہ اپنی ذات کا آتا ہے تو مرے ہوئے کی پچھلی سات نسلوں کو بھی معاف نہیں کر پاتے –
آئیے لاہور چلتے ہیں سن شاید پچاسی ہو گا – لاہور ہائی کورٹ کے دروازے پر علامہ احسان الہی ظہیر چلے آ رہے تھے – نوجوان بلکہ اٹھتی جوانی کی ایک وکیل بہت جذباتی ہو کر ان کی طرف بڑھی – دونوں میں ایک نکتہ اشتراک تھا کہ دونوں ضیاء الحق کے شدید ترین ناقد – نوجوان وکیل کا نام عاصمہ جیلانی تھا – جی یہی جو اب جہانگیر ہویں – ان دنوں ضیاء کے قوانین کا شور تھا – پوچھنے لگی کہ علامہ صاحب عورت کی گواہی کتنی ہے – علامہ نے طرح دی اور نکلنا چاہا لیکن خاتون ٹلنے اور ٹالنے کے موڈ میں نہ تھیں – علامہ بولے کہ بی بی سن لو عورت کی گواہی آدھی ہے – موصوفہ تڑپ اٹھیں اور علامہ کے لتے لینے لگیں – ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی اور یہی ہذیان پھر عمر بهر مقدر رہا –
جنم جنم کا ساتهی ہوا- بے اختیار ہو کر نعرے لگانے لگیں کہ مولوی کی داڑھی آدھی ، مولوی آدھا ، عورت کیوں آدھی …غرض جو منہ میں آیا کہا –
ضیاء دور تھا ، اسلامی نظام کا غوغا تھا ، نفاذ کیا ہونا تھا مذاق ضرور بن گیا – لیکن اس قبیل کو یہ مذاق بھی گوارہ نہ تھا – ایک روز نبی کریم کے بارے میں ہرزہ سرائی کی – ہم جس ” نبی امی ” لفظ پر فخر کرتے ہیں موصوفہ نے اس “امی ” کو ان پڑھ کہہ کے بطور استہزاء بیان کیا ، اور نبی کریم کی کهلی توہین کی – اسی کے رد عمل میں آپا نثار فاطمہ نے اسمبلی میں تحریک پیش کی جو موجودہ قانون توہین رسالت پر منتج ہوئی – اب کسی کو سمجھ آیا کہ موصوفہ کو اس قانون سے “الرجی ” کیوں ہے ؟
کوی ایک قصہ ہو تو کہیں ؟
انسانی حقوق کی پرچارک تھیں ، لیکن اجڑتے گھروں کو “دستک ” میں مزید اجاڑا جاتا ، کس کو ارشد کیس یاد نہیں کہ کس طرح موصوفہ نے مذھب دشمنی میں ہر طرح کی اخلاقیات کو بھلا دیا ، کس طرح محض مولوی کی بدنامی کی خاطر ایک خاندان کو ذلیل و رسوا کیا گیا –
انسانی حقوق کا ڈھونگ تو ان دنوں ہی بیچ چوراہے پھوٹ گیا جب لال مسجد کا واقعہ ہوا تھا – ان کی پاکستانیت کا تو سب کو معلوم ہے جس طرح فوج پر تنقید کرتیں ، آج اس کو لے کر ، اس لہجے کو یاد کر کے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ مرد عورت تھی مرد – ہمارا سوال یہ ہے کہ جناب پنجاب میں ہزاروں معصوم مذہبی کارکن قتل کئے گئے اور ناجائز قتل کیے گئے کس روز ” محترمہ ” کو حریت فکر یاد آئی ، لیکن جب بھی بلوچ افراد کی گمشدگی کے معاملات سامنے آئے ، الاللہ کر کے فوج کے لتے لینا شروع کر دیتیں – اس کے لیے ان کو حب الوطنی کے تقاضے بھی بھول جاتے – یہ کیسے انسانی حقوق کی پٹاری تھی کہ جو بندے کی شکل اور مذھب دیکھ کے کھلتی تھی –
یہ کہنا کہ پس مرگ کسی کو برا کیا کہنا – سونے جیسی بات لیکن ہم کسی کو یوں ہیرو بھی نہیں بنانے دیں گے – موصوفہ مولوی دشمن نہ تھیں بلکہ مذھب سے نفرت کرتی تھیں – فوج دشمن نہ تھیں بلکہ فوج سے نفرت کرتی تھیں – ہم ان کے ذاتی معاملات پر بات نہیں کرتے لیکن یہ کیا کہ موت کے سبب ان کے نظریات کو بھی بھلا دیا جائے –
ہمیں اپنی اولادوں سے زیادہ عزیز ہستی اللہ کے رسول کی ہے ، خاتون کی تمام تر زندگی آپ کی حرمت کے قانون کے خلاف جدوجہد میں گزری ، اور اس کی تنسیخ کی کوشش میں گزری ، ان کی جہد مسلسل کا نکتہ ہی یہ تھا کہ اگر کوئی نبی کی ذات پر طنز کرتا ہے تو یہ آزادی اظہار ہے – اور اسی سبب انہوں نے نبی کریم کی توہین اور استہزاء تک کر چھوڑا تھا –
اور ابھی صرف ایک ہفتہ پہلے موصوفہ نے ٹویٹ کی جس میں قصور کی زینب کے قاتل کو سزائے موت دینے کی مخالفت کی اور اس کی جہالت قرار دیا – ضیاء الحق کے دور سے اس قانون کو جوڑا ، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سزائے موت کا قانون اسلامی ہے نہ کہ ضیاء الحقی …لیکن ضیاء کی آڑ میں موصوفہ پچھلے ہفتے بھی اسلامی سزاؤں کے خلاف بولی تھیں –
متنبی کا شعر ہے ترجمہ پڑھ لیجئے کہ :
جو ہمارے ساتھ مہذب ہے ہم سے بڑھ کے کوئی تھذیب یافتہ نہیں ، لیکن اگر کوئی ہم سے جہالت کا مظاہرہ کرتا ہے تو ہم سے بڑھ کے کوئی جاہل نہیں – سو اس جہالت کہ توہین رسالت کا قانون ایک دقیانوسی قانون ہے …ہم جاہل ہی بھلے ، کوئی ہمیں اخلاق کے بھاشن نہ دے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]
زبردست پوسٹ۔۔۔
ایسے لوگ پاکستان میں دفنانے کے بھی قابل نہیں۔
اظہارِ یکجہتی تو یہ ہوتا کہ کاش اس خنزیر کا جنازہ ہی نہیں پڑھایا جاتا۔۔لیکن پیسوں سے جنازہ پڑھوایا۔۔اُس میں بھی اس جیسی لبڑل پارٹی موجود تھی جسے ڈھنگ کا نہ کچھ معلوم
اللّٰہ ہمارے جزبات اور رسول پاکؐ کی بے حرمتی کی سزاء دے۔ اور آیئندہ ایسے لوگوں کو نشانِ عبرت بنائے
آمین