طارق تاسی
جگر، دل ،نیند ،آنکھیں ،خواب بس میں کچھ نہیں ہے اب
یہی لگتاہےجیسےدسترس میں کچھ نہیں ہےاب
ذراسی کھینچاتانی میں کبھی بھی ٹوٹ سکتاہے
کہ ہےبوسیدگی تار_نفس میں کچھ نہیں ہےاب
سنوجو غور سےاجڑےہوئےاس قافلےکا ایک نوحہ ہے
جوسچ پوچھوتوآواز _جرس میں کچھ نہیں ہےاب
تعلق توڑ کر وہ جا چکا پچھلے برس مجھ سے
بخوبی جانتا ہوں اس برس میں کچھ نہیں ہے اب
کہو صیاد سے وہ بے دھڑک در کھول سکتا ہے
پرندہ مر گیا تاسی قفس میں کچھ نہیں ہے اب