ڈی بریفنگ /شمشاد مانگٹ
ویسے تو ہمارے معاشرے کو کئی بیماریوں نے بیک وقت ’’جپھا‘‘ ڈال رکھا ہے ۔ کچھ جسمانی بیماریاں ہیں اور کچھ روحانی بیماریاں ہیں۔ جسمانی بیماریوں نے پاکستانیوں کی اوسط عمر کوپچاس سال کردیا ہے اور روحانی بیماریوں نے اجتماعی ’’پھٹکار‘‘ہمارے چہروں پر عیاں کردی ہے۔ جھوٹ بولنا ، گالی دینا، غیبت کرنا اور حسد کرنا ایسی بیماریاں ہیں کہ جنہوں نے پورے معاشرے کی روح کو لاغر کردیا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جنہیں ہم قومی مسیحا کا درجہ دئیے بیٹھے ہیں وہ معاشرے کے سب سے بڑے جھوٹے او ردھوکہ باز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
انہی بیماریوں کی کوکھ سے ایک اور بیماری اب قومی سطح پر نمایاں ہو کر ابھری ہے اور یہ بیماری ہے بلیک میل کرنے کی۔ بلیک میلنگ کالیبل پہلے آسانی سے صحافیوں کے ماتھے پر لگا کر باقی لوگ ’’پوتر‘‘ ہو جایا کرتے تھے لیکن گزشتہ پانچ سالوں میں بلیک میلنگ کی اس بیماری نے نچلی سطح سے قومی سطح تک برق رفتاری سے جگہ بنائی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کام سے روک دئیے گئے بانی قائد ایم کیو ایم بہت کامیابی سے کراچی کارڈ کے ذریعے ہر حکومت کو بلیک میل کرکے بڑے بڑے سیاسی فوائد حاصل کرلیا کرتے تھے لیکن اب کراچی کارڈ انکے ہاتھ سے نکل کر فاروق ستار کے ہاتھ آیا تھا لیکن کامران ٹیسوری نے انہیں قائد ثانی ایم کیو ایم بننے سے پہلے رسوا ئے کراچی کردیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں بلیک میلنگ کا کارڈ دو خواتین مسلسل استعمال کررہی ہیں۔ لیکن پتھر دل عمران خان کی انگلی میں پیرنی کی انگوٹھی ہر وار ناکام بنادیتی ہے ۔ پہلے ریحام خان کی خواہش تھی کہ وہ مناسب موقع پر عمران خان کے کڑاکے نکالیں گی لیکن ابھی وہ موقع کے انتظار میں تھیں کہ عائشہ گلا لائی نے گندے پیغامات والا نیا کٹا کھول کر کچھ دنوں کیلئے قومی سطح پر شہرت حاصل کی لیکن عمران خان کی نظر انداز مہم نے انکی بلیک میلنگ کو رفتہ رفتہ غیر موثر کردیا ہے۔
عائشہ گلا لئی کے الزامات کی روشنی میںمسلم لیگ (ن) کے راہنما امیر مقام نے کافی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں لیکن عائشہ گلا لئی کی اوچھی حرکتوں نے انکی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ البتہ اس وقت ریحام خان سرے سے مسلم لیگ ن کے سرحد پار دوستوں کے پاس جا کر بھی اور پاکستانی میڈیا پر بھی آکر اپنی متوقع کتاب کی آمد سے ڈرا دھمکا رہی ہیں
بلیک میلنگ کی سب سے اہم واردات نااہل ہونے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کی ہے انہوں نے بھرے جلسے میں اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ عدالتوں کو بلیک میل کرتے ہوئے یہ دھمکی دی ہے کہ مجھے زیادہ تنگ کیا گیا تو سارے راز فاش کردوں گا اور یہ کہ میں تین بار ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہوں شنید ہے کہ مسلم لیگ ن کے کچھ ’’صاحب دماغ ‘‘دوستوں نے میاں نواز شریف کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بیان اداروں کیخلاف نہیں بلکہ انکے اپنے ہی خلاف ہے کیونکہ درون پردہ اسٹیبلشمنٹ سے صلح کیلئے کی جانیوالی کوششیں ناکام ہوجائیں گی اور قومی سلامتی کے ادارے جو پہلے ہی شریف برادران کی بھارت نواز دوستی پر شاکی چلے آرہے ہیں اس بیان کے بعد تو وہ کبھی بھی میاں نواز شریف پر اعتبار نہیں کریں گے۔
بہرحال میاں نواز شریف چونکہ ایک نیا این آر او چاہتے ہیں اور اس این آر او کے ذریعے وہ اپنی سیاست کا باب بند کرکے مریم نواز کی سیاست کاآغاز کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ البتہ میاں شہباز شریف کے مستقبل کے حوالے سے وہ خاموش ہیں اور کہا جارہا ہے کہ سیاسی طوفان کی تلاطم خیز موجوں کے سپرد وہ اپنے سمیت بھائی کو بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ محترمہ مریم نواز کے راستے کے کانٹے کم ہوسکیں۔ میاں نواز شریف کی دیکھا دیکھی چوہدری نثار علی خان نے بھی اسی بلیک میلنگ کی سیاست کا راستہ اختیار کیا ہے اور چند روز پہلے انہوں نے میاں نواز شریف کو دو ٹوک پیغام پہنچایا ہے کہ فوری طورپر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ڈان لیکس رپورٹ کو پبلک کردیں گے۔ سیاسی حلقے چوہدری نثار علی کی اس دھمکی پر حیران بھی ہیں اور پریشان بھی ہیں۔ حیران اس لئے ہیں کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان نے ڈیمانڈ چھوٹی کی ہے اور پوری نہ ہونے پر وار بڑا کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ اس سے تو بہتر تھا کہ چوہدری نثار علی خان یہ کہہ دیتے کہ سنٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس نہ بلایا گیا تو وہ خود از خود نوٹس لیکر سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا لیں گے ۔ سیاسی حلقے چوہدری نثار علی خان کی دھمکی پر پریشان اس لئے ہیں کہ اگر واقعی انہوںنے ڈان لیکس رپورٹ کو پبلک کردیا تو پھر جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟
ایک طرف نیب نے شریف برادران کا گھیرا تنگ کررکھا ہے اور پورے ٹبر کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے خط لکھ دیا ہے اور دوسری طرف چوہدری نثار علی خان ڈان لیکس کی رپورٹ ہاتھ میںلئے کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ ہر دو صورتوں میں پورا ٹبر ہی گرفت میں آتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ لیکن اس سارے سیاسی کھیل میں خطرناک بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈر اپنے مفادات کیلئے قومی رازوں سے پردہ اٹھانے کو بھی تیار نظر آرہے ہیں۔اگر خلاف قانون کام ہورہا تھا تو میاں نواز شریف کو بطور وزیر اعظم اسکو روک کر عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا ، اسی طرح چوہدری نثار علی خان بھی حب الوطنی کا ثبوت دیتے اور اپنی عادتاً کی جانیوالی پریس کانفرنس میں اعلان کردیتے کہ ڈان لیکس رپورٹ نے ثابت کردیا ہے کہ میں غلط قیادت کے ساتھ کھڑا ہوں لہذا ملک و قوم کی خاطر میں وزارت اور پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ مگر ایسا کرنا شائد ناممکن تھا۔ کیونکہ چوہدری نثار علی خان نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہی اعلان کیا تھا کہ میںپہلے سو دن حکومت کی کارکردگی دیکھوں گ اگر حکومت بیروزگاری اور لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی ختم کرنے میںناکام ہوگئی تو حکومت چھوڑ دوں گا لیکن حکومت اس عرصے میں کچھ نہ کرپائی اور چوہدری نثار علی خان حکومت سے الگ نہ ہو پائے۔
کچھ خبریں یہ ملی ہیں کہ سابق انسپکٹر عابد ۔۔ اور مغرور ایس پی رائو انوار سمیت عزیز بلوچ کو بھی قومی بلیک میلنگ کیلئے استعمال ہونگے ۔ اسکا مطلب بالکل واضح ہے کہ عائشہ گلا لئی ریحام خان کا اپنا ایجنڈا ہے جبکہ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے اپنے اہداف ہیں اسی طرح عابد باکسر ، عزیز بلوچ اور مغرور ایس پی رائو انوار بھی مخصوص اہداف کیلئے استعمال کیے جائیں گے۔