ڈی بریفنگ؍شمشاد مانگٹ
ایک میراثی سے متعلق مشہور ہے کہ وہ سمندر کی تیز لہروں کی زد میں آ گیا تو اس نے اللہ کو پکارا اور کہا کہ اگر میں اس مشکل سے بچ گیا تو تیرے نام کی دیگ چڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے میراثی کی دعا فوری قبول کی اور ایک زوردار لہر نے اسے ساحل کی گیلی ریت پر پھینک دیا۔ میراثی نے مشکل حل ہونے پر فوری طور پر ’’بیانیہ‘‘ تبدیل کرتے ہوئے کہا’’کیہڑی دیگ‘‘؟
میراثی کی نیت میں فتور کو شہ رگ سے زیادہ قریب رب نے فوری بھانپتے ہوئے ایک دوسری لہر کے سپرد کر دیا۔ میراثی نے فوری طور پر ’’بیانیہ ‘‘ایک بار پھر تبدیل کر لیا اور کہنے لگا کہ میرے پروردگار میں تو یہ پوچھ رہا تھا کہ ’’ کہیڑی دیگ‘‘؟ یعنی نمکین یا میٹھے چاول کی دیگ تقسیم کروں۔ پروردگار عالم نے میراثی کی مشکل آسان کر دی۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو سیاسی اور صحافتی میراثیوں سے ہمیشہ اُنسیت رہی ہے اور میاں نواز شریف خود بھی بہت اچھے ’’لطیفہ گو‘‘ ہیں۔ سمندر کی لہروں میں پھنسے ہوئے میراثی اور میاں نواز شریف کی زندگی میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔
میاں نواز شریف 1999ء میں جب سیاسی طوفان کی زد میں تھے اور بوٹوں کی دھمک انکے دل کی
دھڑکن تیز کر دیا کرتی تھی اور فوج کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر انہیں یا تو رات کو نیند نہیں آتی ہیں تھی اور یا پھر ڈراؤنے خواب انہیں گھیر لیا کرتے تھے۔
میاں نواز شریف کے سیاسی دکھ درد کے علاج کے لئے میاں شہباز شریف ہنگامی طور پر حکمرانوں کے دنیاوی آقا امریکہ کورام کرنے کے لئے بھی گئے تھے لیکن امریکہ نے میاں شہباز شریف کو ’’مطلوبہ سہولت‘‘ کے لئے ’’ایزی لوڈ‘‘ کروانے سے انکار کر دیا تھا۔
انہی دنوں میاں نواز شریف نے دلوں تک اتر جانیوالی گفتگو کی تاثیر رکھنے والے مولانا طارق جمیل کو وزیراعظم ہاؤس بلا کر اپنی ’’آپ بیتی‘‘ سنائی اور ان سے روحانی علاج کی درخواست کی تھی۔ میاں نواز شریف نے مولانا طارق جمیل کو اس وقت بھی بتایا تھا کہ ملک بہت مشکل حالات سے دو چار ہے اور ملک سے پہلے انکی اپنی سیاست داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
اس وقت کے اخبارات بتاتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ سچے دل سے توبہ کریں اور اللہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ کریں اور اس کے ساتھ ساتھ عوام سے بھی اپیل کریں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں گِڑ گڑا کر توبہ کرے تاکہ ملکی مشکلات دور ہو سکیں ۔ اس موقع پر مولانا طارق جمیل نے میاں نواز شریف کو کئی احادیث بھی پڑھ کر سنائی تھیں تاکہ انہیں دل کا اطمینان حاصل ہو سکے۔ میاں نواز شریف نے مولانا طارق جمیل سے گزارش کی تھی کہ توبہ کے حوالے سے ایک تقریر تحریر کر دیں جو میں قوم سے خطاب کے دوران پڑھ دوں گا۔ شنید ہے کہ مولانا طارق جمیل نے وہ تحریر بھی لکھ دی تھی لیکن اس تقریر سے پہلے ہی فوجی انقلاب کی ایک زوردار ’’لہر‘‘ میاں نواز شریف اور انکے خاندان کو وزیراعظم ہاؤس سے اٹک قلعہ لے گئی۔
میاں نواز شریف عوام سے توبہ کی اپیل تو نہ کر سکے البتہ انہیں پہلے پاکستان میں اور پھر سعودی عرب کی خود ساختہ جلا وطنی کے دوران توبہ کا بھرپور موقع ملا اور میاں نواز شریف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس طرح کم و بیش 8سال کی ریاضت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انکا عوامی مینڈیٹ
واپس کر دیا اور اقتدار بھی دیدیا۔
لیکن میاں نواز شریف نے مشکل سے نکلتے ہی ’’میراثی‘‘ والی حرکت کر ڈالی اور اقتدار میں آتے ہی انہوں نے عاجزی اختیار کرنے کے جو وعدے اللہ تعالیٰ سے کئے تھے ان سے منحرف ہو گئے اور اقتدار کے پہلے سال ہی انہوں نے صاف کہہ دیا تھا ’’کیہڑی عاجزی‘‘ تے ’’کیہڑی پارلیمنٹ‘‘ ۔ بات اگر یہاں تک رہتی تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ 8سالوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں مزید میاں نواز شریف کو ’’فرعون صفت‘‘ اقتدار میں رہنے کا موقع دے دیتا لیکن میاں نواز شریف نے اقتدار میں آکر پہلے سے زیادہ جھوٹ بولنے اور پہلے سے زیادہ کرپشن کرنے میں جُت ہو گئے اور سب سے بڑھ کر ظلم یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس پارلیمنٹ کو طاقت دی کہ وہ میاں نواز شریف کو طاقتور وزیراعظم بنائے اسی پارلیمنٹ سے میاں نواز شریف نے ختم نبوت ؐ کا حلف نامہ ختم کروانے کی واردات کروائی۔ میاں نواز شریف ابھی میراثی کی طرح سمندر کی پہنچ سے دور بھی نہیں ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو ہی بھول گئے۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ میاں نواز شریف پورے ’’ٹبر‘‘ سمیت ایک بار پھر مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور ایک بار پھر انہوں نے مولانا طارق جمیل کو ہی روحانی شفایابی کے لئے رائیونڈ محل میں بلایا تھا۔
مولانا طارق جمیل چونکہ یہ سوچ اور نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی وقت توبہ قبول کر سکتا ہے اور یقیناً چند ماہ پہلے مولانا طارق جمیل یہی امید لیکر رائیونڈ محل گئے ہونگے البتہ اس بار میاں نواز شریف نے نمازوں اور نوافل سے زیادہ جلسوں پر زور رکھا ہوا ہے تاہم نا اہل ہونے کے بعد جب پنجاب کے پیروں اور فقیروں نے ختم نبوت کے حلف نامہ پر احتجاج شروع کیا اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی ساکھ تباہ ہونے لگی تو میاں نواز شریف نے اللہ تعالیٰ سے نیاز کی دیگ پکانے کا ادھار کرنے کی بجائے ’’نقدی‘‘ دیگوں کا اہتمام کر کے محفل میلاد منعقد کروائی اور پھر شرکاء میں خود چاول بھی تقسیم کئے۔
میاں نواز شریف کو اللہ تعالیٰ نے تین بار اقتدار نصیب کیا اور تینوں بار میاں نواز شریف عوامی خدمت کے جھوٹے دعوے کرتے رہے اور اپنی ذاتی جائیدادوں اور اکاؤنٹس میں بھی اضافہ کرتے رہے۔ میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کے فلور پر آئین کی پاسداری اور عوام سے جھوٹ نہ بولنے کا عہد کیا لیکن انہوں نے خالق سے کئے گئے عہد کو مخلوق کے سامنے بھلا دیا ۔ تیسری بار جب خلق خدا سے جھوٹ بولا گیا تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ آ گئی جسے میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی پکڑ سمجھتے ہیں اور فی الحال وہ اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
بہر حال میاں نواز شریف جب بھی سیاسی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو دو مذہبی رہنماؤں سے ضرور مدد مانگتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن کو میاں نواز شریف اپنا ’’سیاسی ملاح‘‘ تصور کرتے ہیں جبکہ مولانا طارق جمیل سے وہ ’’حسب ضرورت ‘‘ وظائف سیکھتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اپنی خدمات کے عوض میاں نواز شریف سے کئی نمکین اور میٹھے چاول کی دیگیں ’’اینٹھ ‘‘لیتے ہیں جبکہ مولانا طارق جمیل صرف دعائیں دیتے اور دعائیں لیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی مشکلات اس وقت حل ہونگی جب وہ میراثی والی سوچ ترک کر کے اللہ کو راضی کریں گے اور مشکل حل ہوتے ہی کونسی دیگ؟ کا نعرہ نہیں لگائیں گے۔ میاں نواز شریف تین بار اقتدار کی بے رحم موجوں کی زد میں آئے اور ہر بار موجودں نے انہیں ساحل پر پھینک دیا لیکن ہر بار انکے اندر کا میراثی مشکل حل ہوتے ہی اللہ سے کئے گئے وعدوں سے منحرف ہو گیا۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][starlist][/starlist]