تحریر عبدالجبار خان دریشک
زینب کے قاتل درندہ سفت عمران کو سزا سنائی جا چکی ہے اس نے اپنے اوپر
لگائے گئے الزمات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سنائی جانے والی سزا کے خلاف
اپیل بھی کر دی ہے، زنیب کا کیس سوشل میڈیا اور پھر میڈیا پر اٹھائے جانے
کے بعد یہ کیس ہائی پروفائل بن گیا، چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو
ایکشن لیتے ہوئے کیس کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے و ملزم کو پکڑنے اور
جلد کیس کا فیصلہ سنانے کے حکامات دیے تھے۔ جس کے بعد یہ کیس پاکستان کی
تاریخ میں فاسٹ ٹرائل کیس بن گیا جسے ہنگامی بنیادوں پر حل کیا گیا
روزانہ کی بنیادوں کیس کی سماعت کی گئی اور بالاآخر مجرم عمران کو سزا
سنائی
عوامی سطح پر اس بات کی ڈیمانڈ کی گئی کہ ملزم کو سرعام بیچ چوک چوہارے
پر پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ کوئی بھی درندہ دوبارہ
ایسی درندگی کی جرات نہ کرے، لیکن ابھی زینب کے قتل کو چند دن ہی گزرے
تھے، کہ ملک بھر درجن بھر کے قریب اور بچوں کو مختلف شہروں میں درندگی کا
نشانہ بنایا گیا۔ ایک عاصمہ کے پی کے میں درندگی کا نشانہ بنی تو ایک
عاصمہ پنجاب کے ضلع لودھراں میں اپنے کزن کے ہاتھ درندگی کا نشانہ بننے
کے بعد قتل کر دی جاتی ہے۔ ملک میں ایسے جرم پہلی مرتبہ نہیں ہورہے یہ تو
کئی سالوں سے ہورہے ہیں۔ بچے جو ماں کی آنکھوں کے تار ، بابا لاڈلے ،
گھرکی پیاری گڑیا کو درندوں نے اپنی حواص کا نشانہ بنا کر مار ڈالا۔ دن
بدن بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات نے والدین کو مزید مشکل اور پریشانی
میں مبتلا کردیا ہے آئے روز بچے اغوا ہورہے ہیں قتل ہورہے ہیں حواص کا
نشانہ بن ریے ہیں والدین کہاں کہاں بچوں کے ساتھ رہیں اور جائیں۔ ان
حالات کے پش نظر والدین نے بچوں کوگھروں میں قید کر کے رکھ دیا ہے ان کے
کھیل کود اور دیگر مثبت سرگرمیوں پر پابندی ہے باہر کا ماحول غیرمحفوظ
ہے بچے کہیں بھی محفوظ نہیں رہے۔
بچوں سے درندگی کے واقعات پاکستان میں پہلے کم ہوتے تھے لیکن وقت گزارنے
کے ساتھ ساتھ درندوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات
پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں بڑھ چکے ہیں۔ امن سکون کی دنیا اب نسل
انسانی کے لیے خطرے سبب بن رہی ہے، بھارت میں بچوں سے جنسی زیادتی کے
واقعات میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں آٹھ ماہ کی مصوم بچی کو بھی
درندے نے حواص کا نشانہ بنا ڈالا ایسے ہی سات سال کی پناہ گزین خانہ بدوش
بچی آصفہ کو ایک پولیس والے نے زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں جہاں پر سخت سزائیں ہیں وہاں کوئی ایسی حرکت کرنے کا
سوچ بھی نہیں سکتا ہوگا، کیونکہ جہاں سرعام پھانسی دی جاتی ہے وہاں کے
لوگ اسے عبرت کے طور پر دیکھتے ہیں ، اور ایسے جرم کے مرتکب نہیں ہوتے ،
پر ایسا نہیں ہے درندے درندے ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کے ہرکون میں موجودہ ہیں
وہ درندے اپنے اپنے مذہب کا لبادہ اڑھے ہوئے ہیں، وہ درندے کسی مذہب دین
قوم رنگ نسل کو نہیں مانتے کیونکہ وہ شیطان کے بچاری ہیں۔ اور بس وہ
درندے ہیں
کچھ دن قبل ایک اور دلخراش واقعہ نے زینب کی طرح پوری دنیا کو رولا دیا
مصر کے شمال کے علاقے میں مصوم سی پیاری سی چار سالہ گڑیا رودنیا کو
درندے نے قتل کر ڈالا رودنیا گھر سے لاپتہ ہوئی تو اس کی تلاش شروع کی
گئی پولیس نے سب سے پہلے بچی کے پڑوس میں تلاش کرنا شروع کیا مشکوک افراد
سے پوچھ گچھ کی گئی تو رودنیا کے پڑوس میں رہنے والے سولہ لڑکے حسان صابر
پر شک گزرا ، پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لینا چاہی تو اس کے والد نے
پہلے مزاہمت کی اور بعد میں تلاشی دینے پر رضامند ہو گیا۔ پولیس نے جب
حسان کے بیڈ روم میں بستر پر لگے خون کے دھبے دیکھے تو حسان سے پوچھا یہ
کس کا خون ہے لڑکے نے کہا یہ بلی کا خون ہے ، پولیس کا شک مزید بڑھ گیا
انہوں نے کمرے کی تلاشی لی اور بچی کی لاش ایک صندوق کے اندر پائی گئی۔
اس کے بعد لڑکے نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ بچی کو موبائل پر گیم کھلنے
کے بہانے ورغلا گیا تھا، جب وہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے لگا اور اسے
ناکامی ہوئی تو اس نے بچی کے سر میں پتھر مار کر اسے مار ڈالا ۔ بچی کی
لاش صندوق میں رکھ لی جسے وہ اپنے قصبے سے باہر ویرانے میں پھیکنے کا
ارادہ رکھتا تھا۔
ہم بچوں سے جنسی زیادتی کے حوالے سے پوری دنیا کے ممالک کا جائزہ لیں تو
ایک شرمناک صورت حال دیکھائی دیتی ہے ایک طرف ترقی یافتہ ممالک جہاں بچوں
کو ایجوکیشن دی جاتی ہے آپ نے اپنے آپ کو کیسے محفوظ بنانا ہے بیڈ ٹچ
اور گڈ ٹچ کیا ہے اور دوسری طرف ایسے ممالک بھی ہیں جہاں سخت سزائیں اور
سرعام پھانسی جیسی سزا بھی موجود ہے لیکن بچے پھر بھی دونوں طرف غیر
محفوظ ہیں
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک دیکھا جائے تو ایک رہورٹ جو دی نیشنل سوسائٹی
فار دی یوینن آف کریولٹی ٹو چلڈرن نے جاری کے مطابق 2010ء میں انگلینڈ
اور ویلز میں12172 افراد بچوں کے ساتھ ظلم یا غفلت کے مخصوص جرم پر مجرم
پائے گئے ۔ بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کی سب سے بڑی مثال معروف انگلش ڈی
جے اور ریڈیو پرسنالٹی آنجہانی جمی سوائل تھا۔ جو اپنے خیراتی کام کے
لئے مشہور تھا ۔ پولیس کے مطابق اس کے متاثرین کی تعداد 589 تھی، جس میں
ساڑھے چار سو کے ساتھ مبینہ طور پر سوائل نے جنسی زیادتی کی اور متاثرین
کی زیادہ تعداد 8 تا 75 سال کی تھی۔ گذشتہ چار برس کے درمیان برطانیہ بھر
میں پولیس فورسز نے بچوں سے زیادتی کے 60 ہزار مقدمات درج کئے۔ مجموعی
طور پر ریکارڈ کردہ جرائم کی تعداد اس سے زیادہ ہوگی کیونکہ برطانیہ کی
چھ پولیس فورسز نےچار سال کے دوران پورے اعداد شمار فراہم نہیں کئے۔
بچوں کے جرائم کے خلاف ایک تحقیقاتی سنٹر کے ڈائیریکٹر ”ڈیوڈ فینکلور“کے
مطالعاتی نتائج نے ہوش ربا تفصیلات بتلاتی ہے کہ یورپ میں ہر پانچ بچیوں
اور ہر بیس بچوں میں ایک جنسی ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ”child abuse
statistics“ کی آٹھ ستمبر 2017ء کی رپورٹ بتلاتی ہے کہ امریکہ میں چودہ
سال سے سترہ سال تک کے بچے مستقل خطرے کا شکار رہتے ہیں۔ یونیورسٹی آف
پینسلونیا کے ”رچرڈ ایسٹس“ اپنی تحقیق میں انکشاف کرتے ہیں کہ
امریکہ،کنیڈا،سویڈن،جرمنی اور برطانیہ میں سات سال سے پندرہ سال تک کے
بچوں سے ذیادتی کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جو ایک خوفناک شرح ہونے
کے ساتھ ساتھ یورپی ماحول کا بھیانک چہرہ بھی ہیں
اب حال ہی میں ناروے کی پولیس نے ملک میں ایک ایسے نیٹ ورک کو پکڑ ہے جو
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث ہے اور یہ گرہوں بچوں کے
ساتھ جنسی زیادتی کی لائیو ویڈیوز کو “ڈارک نیٹ” پر دیکھاتے تھے۔ ناروے
پولیس کے نائب سربراہ گونر فلوئے شٹاڈ نے میڈیا کو بتایا کہ اس نیٹ ورک
سے وابستہ 20 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن سے 150 ٹیرا بائٹس کا
ڈیٹا قبضے میں لیا گیا ہے، جو بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز پر مشتمل ہے۔ اس
ڈیٹا سے ایسی ویڈیوز بھی ملی ہیں، جن میں بچوں کو دوسرے بچوں یا پھر
جانوروں سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس نیٹ ورک میں ملوث
زیادہ تر افراد پڑھے لکھے ہیں، ان میں وکلاء اور سیاستدان بھی شامل ہیں۔
گرفتار ہونے والے چند ملزمان نے شیرخوار بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے
استعمال کرنے کا جبکہ ایک ملزم نے اپنے ہی بچے کے ساتھ بدسلوکی کا اعتراف
کیا ہے۔ ناروے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اس کیس کو اب تک کا سب سے
بڑا کیس قرار دیا جا رہا ہے۔
دنیا میں ہونے والے ان شرمناک واقعات سے انداز لگایا جا سکتا ہے، کہ
انسانوں سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ظلم کی انتہاہ یہ ہے کہ ایک تو یہ
بچوں کو حواص کا نشانہ بناتے ہیں، تو دوسری طرف ان بچوں کی ویڈیوز بنا کر
اور درندوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اب اگر ان ظالموں کو سرعام پھانسی پر
لٹکایا جائے تو انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو اس پر اعتراض ہوتا ہے۔
لیکن ان اداروں کو بچوں کی چیخ پکاور محسوس نہیں ہوتی، انڈونیشیا میں
ایسے درندوں کو پھانسی پر تو نہیں لٹکا جاتا لیکن ان کو ایک عبرت ناک سزا
دی جاتی ہے جس سے باقی درندوں کو بھی سبق مل جاتا ہے
انڈونیشیا 2002 ء میں ایک نیا قانون بنا کر لاگو کیا گیا تھا جس کے مطابق
ایسے مجرم کے جسم میں انجکشن کے ذریعے ایسے ہامونز داخل کیے جاتے ہیں جو
خواتین میں پائے جاتے ہیں۔ مجرم کے جسم میں ہارمونز داخل ہونے کے بعد وہ
جنسی طور ختم ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں بچوں کے تحفظ کے قانون کے مطابق
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب پائے جانے والے کسی بھی شخص کو پندرہ
سال تک جیل اور اکیس ہزار ڈالر تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی
جنسی صلاحت کو ختم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ترکی نے بھی ایسی سزا دینے کے
لیے پارلیمنٹ میں جلد ہی ایک ایسا قانون پیش کیا جائے گا۔ جس کے مطابق
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں میں دوا کی مدد سے جنسی عمل کی
خواہش محدود یا ختم کر دی جائے گی۔
ترک وزیر انصاف عبدالمجید کے مطابق ملک میں کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی
زیادتی کرنے والے افراد کے خلاف سخت ترین اقدامات کا یہ قانونی مسودہ جلد
ہی ملکی پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اس قانون کے
مطابق حکام بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث افراد میں دوا کی مدد سے
جنسی عمل کی خواہش محدود یا بالکل ختم کر پائیں گے۔ ترکی میں گزشتہ چند
سالوں میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں بڑی تیزی سے آضافہ ہوا ہے اعداد
شمار کے مطابق 2016 میں ترک عدالتوں کے سامنے ایسے اکیس ہزار سے زائد
مقدمات پیش کیے گئے، جب کہ ایک دہائی قبل سن 2006 میں بچوں کے ساتھ
زیادتی کے قریب اڑتیس سو مقدموں کی سماعت کی گئی تھی۔ ترکی میں نئے قانون
کے مسودے کے خلاف انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی جانب سے شدید ردِ
عمل بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے ’کیمیائی آختہ کاری‘ یا ’خصی بنانے‘ کو
انسانی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔
پاکستان میں اگر سخت سزاؤں کی بات کی جاتی ہے تو انسانی حقوق کی تنظمیں
اس میں روکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسا ہی جاوید اقبال کے کیس میں
ہوا تھا، پوری دنیا کے عالمی ادارے اور بچوں کے حقوق کی تنظیموں کو بچوں
کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے چاہیے۔ بچوں کی پورنوں گرافی کی ڈراک ویب
پر پابندی بھی عالمی سطح پر لگائی جائے۔ پاکستان میں بھی انڈنیشیا اور
ترکی کی طرز پر قانون بنائے جائیں جہاں ملزم کی جنسی صلاحت کو ناکارہ کیا
جائے۔