
سیاسی جماعت کا طرزعمل اس حقیقت کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے کہ وہ جمہوریت کے اصل راستے پر گامزن ہے۔ راستہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری انکی منزل اقتدار کی ہوس ہی ہے۔ حالیہ سینیٹ کے انتخابات کو ہی دیکھ لیں کسطرح ان سیاسی جماعتوں نے سینیٹ میں اپنے اپنے امیدواروں کو جتوا کر سینیٹ میں اپنی نشستوں کی تعداد ذیادہ سے ذیادہ بڑھانے کے لیئے ہر حربہ استعمال کیا۔ تحریک انصاف نے پنجاب میں چوہدری سرور کو سینیٹر منتخب کروانے کے لیئے اپنے اصل امیدواروں سے ذیادہ ووٹ حاصل کیئے تو کے پی کے میں پیپلز پارٹی نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر سینیٹر منتخب کروا لیئے۔ پنجاب میں اپنی پارٹی سے وفاداری کا حلف لینے کے باوجود ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے کچھ ارکان اسمبلی کے ووٹ اپنی جماعت کی بجائے کسی اور کے بیلٹ پر ٹھپے لگ کر پڑے تو سندھ میں ایم کیو ایم کے امیدوار کیوں کسی سے پیچھے رہتے۔ سیاست کے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ کے پی کے کے وزیر اعلی پرویز خٹک کے دست بازو شاہ محمد نے بھی تو پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا جس کو پرویز خٹک نے مردان میں تحریک انصاف کی باقی ڈویژنل اور مقامی قیادت کو نظر انداز کر کے ہر فیصلے کا اختیار سونپ کر بااختیار کیا ہوا تھا۔
سینیٹ میں اپنا چیئرمین دوبارہ منتخب کرانے کی ہی ہے۔ 2013 کے انتخابات کے بعد والی پیپلز پارٹی کو زرداری نے دوبارہ اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی اپنا اچھا خاصہ حصہ لینے کی پوزیشن میں ہوگی۔ زرداری صاحب کی سیاسی دانشمندی کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی بعید نہیں کہ زرداری صاحب کی کہی ہوئی بات درست ہو جائے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد انکی مرضی کا ہی وزیراعظم بنے گا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جس کے ہر رکن اسمبلی نے اپنی پارٹی کے سینیٹ کے امیدوار کو ہی ووٹ ڈالا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے منتخب ہونے والی سینیٹر کرشنا کوہلی مبارکباد کی مستحق ہیں جن کو پیپلز پارٹی نے سینیٹر منتخب کروا کر ایک اچھی مثال قائم کی ۔ تحریک انصاف کو کپتان کے بکاو کھلاڑیوں پر مشتمل جماعت اسلیئے کہا کہ “کپتان اچھا ھو تو کھلاڑی نہیں بکتے”