ڈی بریفنگ / شمشاد مانگٹ
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف دو کام ہورہے ہیں اوّل یا تو کرپشن ہورہی ہے اور یا پھر کرپشن کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں۔ گزشتہ ایک برس سے سن رہے تھے کہ سینیٹ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہورہی ہے سینیٹ الیکشن تو آخر کار ہو ہی گئے اور اب سینیٹ الیکشن میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے چوہدری سرور نے حیران کن طور پر سیٹ جیت کر مسلم لیگ (ن) پر لرزہ طاری کردیا ہے۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں تقریباً 14 ایم پی ایز کے زیادہ ووٹ لئے ہیں اور چوہدری سرور کا کہنا ہے کہ پنجاب میں ان باضمیر اراکین نے اپنے ضمیر کی آواز پر مجھے ووٹ دیا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) نے رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو یہ تحقیقات کررہی ہے کہ یہ 14 ’’بے ضمیر‘‘ کونسے ممبران تھے۔ اگر رانا ثناء اللہ ان 14 ’’بے ضمیروں‘‘ کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہوگا جب سرکاری طور پر بے ضمیر تلاش کرکے ان پر مہر لگا دی جائے گی کہ یہ اراکین ضمیر سے خالی ہیں۔
دوسری طرف چوہدری سرور اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ان بے ضمیروں کو ’’باضمیر‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی فی الحال ان کے نام اس لئے ظاہر نہیں کررہی کہ کہیں پنجاب حکومت ان ’’باضمیروں‘‘ پر عرصہء حیات تنگ نہ کردے۔ سینیٹ کے الیکشن نے دلچسپ صورتحال پیداکردی ہے۔ پی ٹی آئی پنجاب میں پارٹی سے ہٹ کر ووٹ دینے والوں کو باضمیر قرار دے رہی ہے جبکہ خیبرپختونخواہ میں پارٹی پالیسی سے بغاوت کرنے والے 20 اراکین صوبائی اسمبلی پر کرپشن کے الزامات لگا جارہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم تحقیقات کررہے ہیں کہ کِس کِس نے کتنے کتنے پیسے لئے؟ اور ابتدائی تحقیقات میں فی ممبر 4 کروڑ روپے لے کر ووٹ دینے کی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں۔
پیپلزپارٹی کے حوالے سے کہا جارہا تھا کہ وہ پنجاب میں بھی ’’کرامات‘‘ دکھائے گی لیکن پنجاب میں پی ٹی آئی نے ’’کرشمہ‘‘ کردکھایا البتہ خیبر پختونخواہ میں پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کو گہری چوٹ لگائی ہے اور غیر متوقع طو رپر 2 سینیٹر بنوا کر عمران خان کے لئے پریشانی پیدا کردی ہے۔ عمران خان نے ’’بکنے‘‘ والے اراکین کا سراغ لگانے کے لئے جے آئی ٹی بنانے کی بجائے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی رپورٹ پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سینیٹرز بنانے کے اس کھیل میں سب سے ’’عمدہ‘‘ کارکردگی آصف علی زرداری کی رہی ہے جنہوں نے بلوچستان میں بھی ’’کام‘‘ دکھایا اور خیبر پختونخواہ میں بھی تیر چلایا اور سندھ میں انہوں نے ایم کیو ایم کے اختلافات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے 8 کی بجائے 10 سینیٹرز کامیاب کرالئے۔
آزاد سینیٹروں کی تعداد 15 ہے اور یہی لوگ اب اپنی ’’سرمایہ کاری‘‘ کا حساب برابر کریں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی ضرور ہے لیکن اپنا چیئرمین بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مگر اپنا چیئرمین لانا بھی اس کی مجبوری ہے۔ اس ’’عظیم‘‘ کام کیلئے اسے ایک بار پھر آصف علی زرداری کیلئے رائیونڈ میں 100 کھانے تیار کرنے کی زحمت کرنا پڑے گی اور اگر ایسا ہوگیا تو اس کا فائدہ عمران خان اٹھائیں گے جو گزشتہ 4 سال سے ’’مک مکا‘‘ کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔
آصف علی زرداری نے اگر سینیٹ کے عہدوں کے لئے مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرلیا تو یہ ان کا عارضی سیاسی فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طو رپر پیپلزپارٹی کیلئے ’’سیاسی آکسیجن‘‘ مزید کم ہوجائے گی کیونکہ مفاہمت کی سیاست نے پہلے ہی پی پی پی کو ڈرائنگ روم کی پارٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ ایک طرف سیاستدان ’’سینیٹ لیکس‘‘ پر پریشان دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے صرف ایک دن میں میاں نواز شریف ‘ میاں شہباز شریف ‘ حمزہ شہباز ‘ مریم نواز ‘ کیپٹن صفدر ‘ انوشہ رحمن‘ اسحاق ڈار اور عمران خان سمیت 35 بڑے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا ’موگاہ‘‘ کھول دیا ہے۔
چیئرمین نیب نے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف چوہدری شوگر ملز سمیت دیگر اثاثے بنانے کی تحقیقات شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اسی طرح پاناما سکینڈل میں 15 آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہونے کے بعد اس کے مالک ذوالفقار بخاری کے خلاف بھی انکوائری شروع کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
نیب نے ریلوے ایمپلائز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ اور دیگر بدعنوان عناصر کے خلاف بھی قانونی شکنجہ تیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نیب سول ایوی ایشن کے افسران کی بدعنوانیوں کو کھنگالنے پر بھی تیار ہوگیا ہے۔ جبکہ چیئرمین نیب نے پاکستان کے بے روزگار عوام سے نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے نام پر اربوں روپے لوٹنے والوں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کرنے کی ہدایت جاری کردی ہیں۔ اسی طرح نیب نے سلیم سیف اللہ‘ سینیٹر عثمان سیف اللہ اور انور سیف اللہ کے خلاف انکوائری شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ عمران خان کے خلاف سرکاری ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال پر انکوائری شروع کی جارہی ہے اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور چیف سیکرٹری خیبرپختونخواہ خالد پرویز سمیت دیگر افسران کے خلاف مالم جبہ میں 275 ایکڑ سرکاری اراضی غیر قانونی طریقے سے لیز پر دیئے جانے کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تحقیقات شروع کرنے والی نیب کی دو دھاری تلوار کی زد میں ماضی کی کرپشن میں تحقیقات سے گھبرائے ہوئے اسحاق ڈار بھی آگئے ہیں اور وفاقی وزیر انوشہ رحمن کے خلاف تحقیقات کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔
بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر اظہار حسین پر گندم کی بوریوں کی فروخت میں کرپشن کرنے کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی بھی تحقیقات کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ مزید برآں نیب نے ایل ڈی اے میں کرپشن کے ’’گرو‘‘ احد چیمہ کے خلاف انکوائری کا حکم بھی صادر کردیا ہے۔ چیئرمین نیب نے کرپشن کے خلاف جہاد میں اگرچہ بلا امتیاز ’’ملزمان‘‘ کی صف بندی کرنا شروع کردی ہے لیکن فی الحال نچلی سطح تک پھیلا ہوا کرپشن کا ناسور ختم ہونے کو تیار نہیں ہے۔ تاہم چیئرمین نیب نے کرپشن کو کینسر جیسا موذی مرض قرار دے کر اس کے خلاف جو آپریشن شروع کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ اللہ کرے یہ آپریشن کسی این آر او کی نظر نہ ہوجائے۔#/s#
٭٭٭٭٭
[starlist][/starlist][facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]