Doctor Imran Danish
زندگی کیا ہے ؟
کیا معنی رکھتی ہے ؟
اس کے کیا تقاضے ہیں؟
یہ کتنی ہونا چاہیے؟
اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں کیا مراحل طے کرتی ہیں؟
ایسے لاکھوں سوالات زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے گزرتے ہمارے ذہنوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں زندگی کے مختلف مراحل کو کامیابی یا ناکامی یا ملے جلے انداز سے گزارنے والے افراد اپنے تجربے سے بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ اور ہمیں ان کی زبانی اُنہی کے لب و لہجے میں ُان کے ساتھ ہونے والے واقعات، حادثات اورکامیابیاں ،کامرانیاں معلوم پڑتی ہیں۔ ایسے ہی کبھی کبھی کچھ ایسی کمال تخلیقات ،
تحریریں، نثر پارے، ناول، افسانے، شاعری یا دیگر ادبی فن پارے ایسے کمال کے اسباق عطا کرتے ہیںکہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ بلکہ طویل عمر کا تجربہ بھی شائد اس علمیت کا عشر عشیر بھی عطا نہ کر سکے، جو یہ تخلیقات ایک دو گھنٹے کے عمیق مطالعے سے عطا کرتی ہیں ۔ ایسے ہی ایک تحریری مشاہدے پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ کہ زندگی ویسے ہے کیا ؟
اس کو اگر چند مفروضات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس کی کیا مراحل اور مدارج سامنے آسکتے ہیں۔
ایک عربی تحریر (ھمدردیات) سے کچھ اقتباس بر سبیلِ وضاحت پیش ہے۔ آیئے !دیکھتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں یہ مفروضات کس حد تک سچائی اور حقیقت کے قریب ہیں ۔
ایک مفروضہ ہے کہ تخلیقِ کائنات کے وقت عطائے حیات کے مرحلے کے دوران گدھے سے کہا گیا:
تم بلا تکان صبح سے شام تک بھاری بھرکم بوجھ اٹھاتے رہو گے جو تمھاری خوراک ہوگی!
تمہارے پاس کوئی عقل نہ ہوگی اور پچاس سال جیو گے!
گدھا بولا:
ٹھیک ہے میں گدھا ہوں گا! لیکن پچاس سال بہت زیادہ ہیں، مجھے بس بیس سال دے دو!
چنانچہ اس کی مراد پوری ہوگئی۔
کتے سے کہا گیا:
تم انسانوں کے گھروں کی حفاظت کرو گے! انسان کے سب سے اچھے دوست ہوگے! اور انسان سے بچی ہوئی چیزیں کھاؤ گے!
اور تمہاری زندگی تیس سال ہوگی!
کتے نے کہا:
تیس سال بہت ہیں، مجھے پندرہ سال درکار ہیں، چنانچہ اس کی مراد پوری ہوگئی۔
بندر سے کہا گیا:
تم ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگاتے اور دوسروں کو ہنسانے کے لئے طرح طرح کے کرتب دکھاتے رہو گے!
اور تمہاری زندگی بیس سال ہوگی۔
بندر بولا:
بیس سال زیادہ ہیں، میں صرف دس سال جینا چاہتا ہوں،
چنانچہ اس کی مراد بھی بھر آئی۔
انسان سے کہا گیا:
تم روئے زمین پر سب ذہین مخلوق ہوگے! اور تم اپنی عقل کو دوسری مخلوقات کا سردار بننے، زندگی کو خوبصورت بنانے اور زمین کو آباد کرنے کے لئے کام میں لاؤ گے،تمہاری زندگی بیس سال ہوگی!
انسان نے جواب دیا:
میں صرف بیس سال جینے کے لئے انسان بنوں گا؟
یہ عمر بہت کم ہے! مجھے وہ تیس سال درکار ہیں! جو گدھے کو نہیں چاہئیں، وہ پندرہ سال بھی جنکی کتے کو ضرورت نہیں اور وہ دس سال بھی جن سے بندر نے انکار کیا۔
پس اس کی بھی مراد بھر آئی!
بس اسی زمانے سے انسان بیس سال انسان کی طرح گزارتا ہے۔ اسکے بعد اسکی شادی ہو جاتی ہے۔ پھر تیس سال گدھے کی طرح جیتا ہے۔طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک پسینہ بہاتا اور کام کرتا ہے، اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھاتا ہے اور اسکے بعد جب اسکے بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو پندرہ سال کتے کی طرح گزارتا ہے۔ گھر کی حفاطت کرتا، دروازے اور بجلی بند کرتا رہتا ہے اور بچوں کا بچا ہوا کھانا کھاتا ہے۔اسکے بعد جب بوڑھا اور ریٹائرڈ ہو جاتا ہے، تو دس سال بندر کی طرح گزارتا ہے۔ ایک گھر سے دوسرے گھر اور ایک بیٹے کے پاس سے دوسرے بیٹے اور ایک بیٹی کے ہاں سے دوسری کے ہاں جاتا رہتا ہے اور اپنے پوتے پوتیوں کو ہنسانے کے لئے عجیب عجیب کرتب دکھاتا اور کہانیاں سناتا رہتا ہے!!
اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مذکورہ مفروضات حقیقت کے اتنے قریب ہیں، کہ ہم بطور اِنسان آدھی زندگی، انسانوں جیسی اور باقی ماندہ ، گدھے، کتے اور بندر جیسی ہی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ مزید جینے کی خواہش پھرکم نہیں ہوتی، طویل عمر کی حرص روز بروز لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ زندگی سے تنگ بھی ہیں، مگر موت کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ بسترِ مرگ پر ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ آخری ہچکی بھرتے ہوئے بھی کچھ دن، کچھ ماہ کچھ سال اور جینا چاہتے ہیں ۔ کاش ایک زندگی اور مل جائے ۔ کاش ہم پھر جی لیں۔
[starlist][/starlist][facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]