ڈی بریفنگ/ شمشاد مانگٹ
حکمرانوں کا طرز عمل بتا رہا ہے کہ ان کے اندر سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مکمل طور پر ’’بانجھ‘‘ ہو چکی ہیں حالانکہ 35 سال پہلے ان حکمرانوں کو دماغی صلاحیتوں سے عاری ہونے کی ’’صفت‘‘ پر ہی سیاست میں متعارف کروایا گیا تھا۔دو سال پہلے جب پاناما لیکس کا طوفان برپا ہوا تھا تو حکمران خاندان سمیت کسی وزیر اور مشیر نے بھی دماغ پر زور دے کر اس دلدل سے نکلنے کی تدبیر نہیں کی البتہ اس دلدل میں مزید دھنسنے کے لئے بے شمار ’’بہانے‘‘ بنائے گئے۔
پاناما پیپرز جب کئی ملکوں کے سربراہوں کے تخت و تاج بہا کر لے جا رہے تھے تو حکمران ’’ٹبر‘‘ الیکٹرانک میڈیا پر ایسے بہانے تراش رہا تھا جو بعد میں ان کے گلے پڑ گئے۔ میاں نواز شریف جس ریفرنڈم کی آج بات کر رہے ہیں اگر اپریل 2016ء میں یہ نعرہ مستانہ بلند کرکے عوام میں چلے جاتے تو آج تمام سیاسی لیڈروں میں ’’قد آور‘‘ ہوتے لیکن محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید جیسے مشیروں نے کشتی کا آخری ’’پھٹہ‘‘ بھی اکھڑنے کا انتظار کیا اور پھر قوم نے یہ بھی دیکھا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر مسلم لیگ(ن) کی ’’بند دماغ‘‘ قیادت جشن مناتی ہوئی نظر آئی۔
مسلم لیگ(ن) کے ہمدردوں نے اس ’’مٹھائی‘‘کو بھول قرار دے کر معاف کر دیا لیکن پھر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے جو فیصلہ دیا اس پر بھی دماغ کو کام کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے مٹھائیوں کے منہ کھول دیئے گئے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے فیصلے کی بہری قیادت کو تقریباً ایک ہفتہ بعد سمجھ آئی جب سپریم کورٹ کے تین ججوں کے حکم پر جے آئی ٹی کے ممبران نے پورے ’’ٹبر‘‘ کو طلب کر کے سوال پوچھنا شروع کئے۔ حکمران خاندان کی ’’ڈھٹائی ‘‘ کو داد دینا پڑتی ہے کہ آنکھوں کے سامنے بدلتے ہوئے موسم دیکھ کر بھی انہوں نے تدبیر سے کام لینے کی جستجو ہی نہیں کی حالانکہ میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان نے اس عرصے کے دوران متعدد بار محسوس کیا کہ پارٹی قیادت کو ’’دماغ‘‘ سے کام لینا چاہئے۔ چودھری نثار علی اور میاں شہباز شریف نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا مشورہ بھی دیا لیکن بھلا ہو محترمہ مریم نواز کا جس نے اپنے والد کو وزارت عظمٰی سے نااہلی کے بعد جوتے کھانے تک پہنچا دیا ہے ۔
مسلم لیگ(ن) کے اندر سنجیدہ حلقوں کو اب یقین ہو چکا ہے کہ محترمہ مریم نواز ہی تمام مسائل کی جڑ ہیں اور تمام نااہلیوں کے راستے محترمہ مریم نواز ہی کھولتی چلی جا رہی ہیں ۔ ایک طرف مسلم لیگ(ن) میں سوچ بچار کرنے کی شدید کمی پائی جاتی ہے اور دوسری طرف تمام معاملات میں ’’بے صبری‘‘ بدرجہ اتم موجود ہے ۔
مثال کے طور پر اپنے 35 سالہ دور اقتدار کی لوٹ مار کا جب حساب ہونے لگا تو مسلم لیگ(ن) نے انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے مالی امور بھی سپریم کورٹ کے حوالے کر دیئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے 35 سالہ کرپشن پر میاں نواز شریف کو جھوٹا قرار دے دیا اور ان کے مقابلے میں چونکہ عمران خان کبھی اقتدار میں رہے ہی نہیں۔ اس لئے سپریم کورٹ نے انہیں صادق اور امین قرار دے دیا ۔ مسلم لیگ(ن)کی قیادت فوری بدلہ چاہتی تھی تاکہ عوام کو یہ بتا سکے ایک ہمارا نااہل ہو گیا اور ایک مخالفین کا نااہل ہو گیا مگر یہاں پر بھی مسلم لیگی قیادت نے دماغ پر بوجھ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اور ابھی تازہ ترین واقعہ میں ایک بار پھر مسلم لیگ(ن) نے سرجوڑ کر سوچنے کی بجائے دماغ کو چھٹی دے کر جوتے کا بدلہ فوری اتارنے کے لئے اسی روز فیصل آباد میں اپنا ’’جوتا مار ‘‘ کارکن بھیج دیا جو کہ نہ صرف پکڑا گیا بلکہ اس نے عوام سے جوتے کھا کر بتا دیا کہ مجھے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے داماد شہریار نے پلانٹ کیا تھا ۔
میاں نواز شریف کو بہت قریب سے ’’ شاہد آفریدی ‘‘سٹائل کے ساتھ جوتا مار کر فاتحانہ بازو پھیلانے والا نوجوان ناموس رسالتؐ کا پروانہ ہے اور اس نے بتا بھی دیا ہے کہ میں نے میاں نواز شریف کو ختم نبوتؐ کا حلف نامہ ختم کرنے پر ٹارگٹ کر کے جوتا مارا۔ مسلم لیگ(ن) کی اعلٰی قیادت نے طے کر لیا ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو اور کیسا بھی ہو لیکن دماغ کو ہر وقت ’’حالت آرام ‘‘میں رکھنا ہے۔
پوری مسلم لیگی قیادت کا باجماعت دماغی معائنہ کروا کے دیکھ لیں تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ دماغ کو ’’زحمت‘‘ دیئے ہوئے مدت ہو چکی ہے بلکہ عین ممکن ہے کئی ایک راہنمائوں کے دماغ کو تو زنگ بھی لگا ہوا نظر آ جائے ۔ فیصل آباد میں جوتا مارنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد مسلم لیگیوں نے دماغ سے کام لینے کی بجائے گجرات کے ایک کارکن سے کام لینے کی کوشش کی اور اس بار جوتا ’’سفید پوش ‘‘علیم خان کی چھاتی کو ٹچ کر گیا۔ ٹارگٹ پھر بھی حاصل نہیں ہو سکا ۔ اس سیاسی’’جوتم پلان‘‘ میں محترمہ مریم نواز نے اپنی خاندانی ’’صلاحیتوں‘‘ کے عین مطابق نیا چیلنج کر دیا ہے کہ کوئی مجھے جوتا مار کر دکھائے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ تمام پاکستانیوں کو ماؤں بہنوں کا خیال ضرور رہے گا بے شک وہ جوتا مارنے پر اکساتی رہیں البتہ مسلم لیگ(ن) میں سوچنے کی صلاحیتوں کو تقریباً دفن کر دینے والے وزیر مملکت طلال چودھری نے جوتا مار مہم کو بڑھاوا دیتے ہوئے کہا کہ جوتا آئینی اداروں کے سربراہوں کو بھی کوئی مار سکتا ہے ۔
اس ساری منظر کشی کا مقصد یہ تھا عوام کو بتایا جائے کہ لیڈروں کو داخلی اور خارجی محاذوں پر مشکلات ضرور ہوتی ہیں لیکن ان کا توڑ وہ تدبیر سے کرتے ہیں مگر مسلم لیگ (ن) نے تمام کانٹے چن چن کر اپنی راہوں میں خود بکھیرے ہیں اور الزام دوسروں پر لگائے جا رہے ہیں ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مسلم لیگ(ن) اپنے اور عوام کے راستے کے کانٹے چن چن کر سفر کر آسان بناتی مگر گزشتہ روز کنونشن سنٹر میں میاں نواز شریف کی تقریر بتا رہی تھی کہ وہ اب بھی دماغ کو استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی حرکتوں کو دیکھ کر یہ معقولہ درست معلوم ہوتا ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ۔ دونوں بھائیوں نے حسب ضرورت بال تو سر پر لگا لئے لیکن اقتدار کے ناخن بھی تراشوا لیتے تو بہت کامیاب حکمران ثابت ہوتے۔ میاں نواز شریف کی گزشتہ روز کی تقریر ایک ’’سیاسی بیوہ‘‘ کا رنڈی رونا تھا کیونکہ جن کے ساتھ مل کر وہ اقتدار کے مزے لوٹتے تھے وہ ساتھی بہت دیر پہلے ان سے منہ موڑ چکے ہیں اور جس آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر وہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی بھینس کا دودھ پیا کرتے تھے وہ زرداری بھی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ شنید ہے کہ میاں نواز شریف نے مشاہد حسین سید کو سینیٹر بنا کر ان کی خدمات مسلم لیگ(ق) سے اس لئے واپس لے لی ہیں تاکہ میاں صاحب کو کسی بھی معاملے میں دماغ پر لوڈ نہ ڈالنا پڑے۔ میاں نواز شریف کا رنڈی رونا آئندہ الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا لیکن دماغ کے استعمال کو وہ حرام ہی سمجھتے رہیں گے حالانکہ میاں نواز شریف کو ’’مغز اورحرام مغز ‘‘ میں فرق سمجھنا چاہئے جبکہ میاں نواز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سری پائے کے ساتھ ساتھ بکروں کا مغز بھی بہت شوق سے کھاتے ہیں لیکن اب وہ آئندہ الیکشن تک مسلسل عوام کا ’’مغز‘‘ کھائیں گے اور اپنے مغز سے پھر بھی کام نہیں لیں گے اور مغز کو مزید کام چوری کا عادی بنائیں گے۔
[starlist][/starlist][facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]