خواتین ڈے پر خواتین شعراء کے ساتھ خاتون ادیبہ کا سلوک

رخسانہ سحر
جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ 8مارچ خواتین کاعالمی دن ہے اوراس حوالے سے ساری دنیامیں تقریبات کاانعقادکیاجاتاہے ۔اسی طرح پاکستان میں بھی مختلف سماجی اورادبی تنظیمیں مختلف پروگرامزترتیب دیتی ہیں جن میں خواتین کی فلاح وبہبودکوزیربحث لایاجاتاہے۔ اس دن پوری دنیاکی خواتین یک جان ہوکربلارنگ ونسل ومذہبی تفریق کے اپنے حقوق کیلئے آوازبلندکرتی ہیں ۔اس دن کومنانے کافیصلہ کئی سال قبل ترقی یافتہ ممالک کے بین الاقوامی ادارے نے کیااوراب اسے پوری دنیامیں منایاجاتاہے۔
اسی طرح اکادمی ادبیات اسلام آبادمیں بھی اس دن دوتقریبات کااہتمام کیاگیا۔صبح11بجے سے 3بجے تک خواتین کاسیمینارتھاجس میں ملک کی نامورخواتین نے شرکت کی ۔بہت بھرپورمحفل نے ہمارے دل موہ لیے۔
شام3:30بجے کاٹائم خواتین کے مشاعرے کے لیے مختص کیاگیاجوکہ ہرسال رکھاجاتاہے جس میں صرف خواتین شاعرات اپناکلام سناتی ہیں اورشاعرحضرات کلام سننے نہیں بلکہ دیکھنے آتے ہیں (بقول حسن عباس رضا)جوخوداس محفل مشاعرہ کے منتظمین میں شامل تھے جن کے اپنے الفاظ تھے آج خواتین کی محفل میں میں نے سارے ان سب مردحضرات کوبلایاہے جو سننے سے زیادہ دیکھنے کے شوقین ہیں ۔
ساڑھے تین بجے مہمانوں کی آمدکاسلسلہ شروع ہوگیا۔چیئرمین کے کمرے میں مہمان شعراء اکٹھاہوناشروع ہوگئے جن میں افتخارعارف(جن کی ایک خوبی سے سب واقف ہیں کہ آپ وقت کی پابندی کاہمیشہ خیال رکھتے ہیں )میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی افتخارعارف،یاسمین حمید،رخسانہ صولت،منیرہ شمیم تشریف فرماتھیں۔ اسی دوران بزرگ شاعرسرورکامران اورحمیدشاہد اپنی بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے توافتخارعارف نے برجستہ کہا’’آج تومردے بھی قبرسے اٹھ کرخواتین کامشاعرہ سننے آئے ہیں ‘‘۔
آج کے خواتین مشاعرے کی صدارت معروف شخصیت کشورناہیدکررہی تھیں توسب کوانہیں کاانتظارتھاجیسے ہی آپ تشریف لائیں ہم سب بھی کانفرنس ہال کی جانب بڑھنے لگے ۔رسمی سلام ودعاکے بعدسب مہمان اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہوگئے۔



اس تقریب کے دوپہلوتھے ۔پہلے حصے میں یاسمین حمیدنے خواتین ،تخلیقی ادب اورمعاشرہ کے موضوع پرایک مقالہ پیش کیاجس کادورانیہ ایک گھنٹہ کے لگ بھگ تھا۔مقالہ کے دوران ہی اذان عصرکاوقت ہوگیااورجیسے ہی اذان شروع ہوئی یاسمین حمید نے خاموشی اختیارکی لیکن کشورآپانے ناگواری سے کہاپڑھتی جاؤ۔پڑحتی جاؤلیکن یاسمین حمید نے کشورآپاکی بات کوسنی ان سنی کردیااوراحتراماً کھڑی رہیں جب تک اذان ختم نہیں ہوگئی۔
جبکہ کشورآپاکی اس بات نے حاضرین محفل کوچونکادیااورسب ایک دوسرے کاحیرت سے منہ تکنے لگے۔مقالے کے بعدباقاعدہ مشاعرے کاآغازکیاگیا۔نظامت کے فرائض درشہوارنے انجام دیئے۔حسب روایت انہوں نے اپنے اشعارسے مشاعرے کاآغازکیاجس پرصدارت اورحاضرین محفل کی جانب سے دادبرائے نام رہی۔شاعرات آتی رہیں کلام سناتی رہیں لیکن سننے والاتوتھاکوئی نہیں البتہ دیکھنے والے کافی محفوظ ہوتے رہے۔ سونے پرسہاگہ آج مشاعرے میں یوں لگ رہاتھاجیسے کلاس روم میں بچہ اپنی سخت قسم کی استانی سے ہوم ورک نہ کرنے پرسخت ڈانٹ کھاکرواپس جاتاہو۔ایک نئی نئی مشاعرہ جوکہ افسانہ نگاری سے یکدم شاعری کی طرف آئی ہیں اپنی نظم سنارہی تھیں توکشورناہیدآپاکے چہرے پرغصہ چھلکنے لگا ۔حسن عباس کوغصے سے کہنے لگیں کہ پہلے دیکھ لیا کروکہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں۔پھرشاعرہ کوبلاؤاوربیچاری نظم سناتی شاعرہ غصے میں اپنی نظم بیچ میں ہی چھوڑے اپنی سیٹ پرجابیٹھیں جبکہ آج کے دن ہوناتویہ چاہیے تھاکہ نئی تخلیق کارخواتین کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی فرمائی جاتی جبکہ میں نے اس وقت کے بارے میں بھی سن رکھاہے جب چائنہ چوک سے پارلیمنٹ ہاؤس تک سول سوسائٹی کوخواتین لیڈکرتیں جبکہ سیاسی وادبی شخصیات اورمیڈیاکی خواتین اس میں شامل ہوئیں۔نسرین اظہر،ک شہورناہید،عاصمہ جہانگیر ،فرالپ گوہر،شیماکر مانی ، ریحانہ ہاشمی،خالدہ سلیمی ،ممتازآپاکے ہمراہ کئی سالوں تک پارلیمنٹ کے سامنے بازوؤں پرسیاہ پٹیاں باندھ کے عورتوں کے لیے اسمبلیوں میں33فیصدکوٹہ کے لیے نعرہ بلندکیا۔نغمے وترانے گائے۔یعنی پرانے رسم ورواج کوبدلنے کے لیے باہرنکلیں۔نعرے لگائے لیکن آج وہی کشورآپااپنی نئی لکھاریوں کی حوصلہ شکنی کرنے میں بالکل بھی نہیں شرمارہیں۔



درشہوارجنہوں نے آج کے دن شبنم شکیل کوبھی یادرکھتے ہوئے ان کے کچھ اشعارپیش کئے کہ شایدمحفل میں کچھ جان پڑھے لیکن کشورآپاکے منہ سے دادنے آج نہ نکلنے کی قسم کھارکھی تھی۔درشہوارنے پھرجب اگلی شاعرہ کوبلانے سے پہلے اپنی بہن اوربہت اچھی شاعرہ نورین طلعت عروبہ کے کچھ اشعارپیش کرنے کی اجازت چاہی توباقاعدہ انہیں بہت برے طریقے سے آپانے ڈانٹ پلادی۔کہ بس کرجاؤآگے ہی بہت دیرہوگئی ہے جلدی جلدی سب کوبلاؤ اورمشاعرہ آگے بڑھاؤلیکن وہ بھی بضدرہیں اورکچھ اشعارکی بھیک مانگتی رہیں جب یہ آپانے کہاکہ میری طرف سے تواجازت نہیں تم پڑھتی ہوتوپڑھ لو ۔جس پردرشہوارنے زبردستی دوسے تین اشعاراپنی بہن کے پڑھے اوران کوبھی محفل میں شامل کرنے کی کوشش کرلی۔میں سمجھتی ہوں آج کی محفل مشاعرہ جوکہ صرف خواتین کے لیے سجائی گئی اوراس کی کی صدارت بھی ایک سینئرخاتون شاعرہ کوسونپی گئی اس خاتون شاعرہ کوجوکہ ناصرف خواتین شاعرات کی آئیڈیل ہوسکتیں ہیں بلکہ ان کودیکھ کرمزیدآگے بڑھنے کی جستجوبھی کی جاتی ہے لیکن عملی طورپرجب وہ آئیڈیل شخصیت ہمارے روبروآتی ہیں توعلم ودانش کایہ خزانہ بالکل کھوکھلانظرآتاہے۔کیونکہ علم تو انسان میں اخلاقیات پیداکرتاہے اورجب انسان کواتنابڑارتبہ ملتاہے تو اس میں عاجزی وانکساری کاپہلوسب سے نمایاں ہوناچاہیے لیکن یہاں توبات ہی الٹ نظرآئی آج کے دن خواتین کی پذیرائی کرنے کی بجائے بھرپورحوصلہ شکنی کی گئی کیونکہ جب سنانے والی شاعرہ کاکوئی بھی شعر کشورآپاسنتی تونہ صرف نفی میں سرہلاتی رہیں بلکہ سرپرہاتھ رکھے یوں باورکرواتی رہیں کہ کسی کوکچھ نہیں لکھناآتااورفضول شعرسنائے جارہے ہیں یاتوآج کی محفل کی صدارت کے لائق کشورآپانہیں تھیں یاہم جیسی شاعرات۔
کیونکہ میں نے سناہے کہ جب انسان بہت پڑھ لکھ جاتاہے اوراسے شہرت کی بلندیاں ملتی ہیں تویاتووہ اپنی اوقات بھولنے لگتاہے یاپھربہت ہی مدبربن جاتاہے۔ہمیں ایسے قدکاٹھ کاکیافائدہ جس میں عورت ہی عورت کی تذلیل کرے۔
اس موقع پرزبیرقیصرکاایک شعریادآرہاہے۔
بات کرنے کی بھی تمیزنہیں
آپ کرتے ہیں شاعری صاحب

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][starlist][/starlist]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *