آپ تو کٹھ پتلی …. دلّالوں کی
….
ابوبکر قدوسی
ہوس کے پجاریوں نے اپنی ہوس کے مٹانے کے کیا کیا سامان نہ کر چھوڑے – بندہ حیران ہو جاتا ہے – اگلے روز اسلام آباد میں کچھ ” بے وقوف ” عورتوں کا اجتماع ہوا – جو “عورت پن” کے مرض کا شکار تھیں – بھولی گائیں یہ سمجھتی ہیں کہ بعض روشن خیال مرد ان کی آزادی کے پرچارک ہیں – اور یہ جو “روشن خیال” مرد ہیں کبھی ان کی نجی مجلس میں خواتین بارے ان کے تبصرے سن لیں تو آپ کو ان وجود سے گھن آنے لگے گی –
عورت کے یہ بیوپاری عورت کو منڈی کے مال سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے – اسے کھیل کی شے سمجھتے ہیں – اور عورت اپنی آزادی کے چکر میں غلام درغلام بنتی چلی جاتی ہے –
آپ صرف دو شعبوں ” بازار حسن ” اور میڈیا (الیکٹرانک ، پرنٹ ) کو دیکھ لیجئے آپ کو عورت کی مظلومیت اور اس طبقے کی شقاوت اور بے حسی کا اندازہ ہو جائے گا –
کسی روز فرصت پیدا کیجئے اور ” بازار حسن ” تشریف لے جائیے – آپ کے سینے میں اگر دل ہے تو آپ برداشت نہیں کر سکیں گے – شاید بیس برس گزرے کہ میں ایک انتخابی جلسے میں لاہور کے بازار حسن چلا گیا – میں کہ جس کی “جم پل ” لاہور تھی آج اس لاہور کو دیکھ رہا تھا کہ جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا – بے انتہا خوبصورت ، یا شاید پیش کش زیادہ خوب صورت تھی … عورتیں سج سنور کے نیم برہنہ لباس پہنے ” دفتر ” سجائے بیٹھی تھیں – دوست نے بتایا کہ کچھ دیر میں یہ بیٹھکیں بند ہو جائیں گی اور ناچ گانا شروع ہو جائے گا – اور اس کے بعد “کچھ جانور ” قیمت ادا کر کے “اسی گوشت ” کو بھنبوڑ کھائیں گے –
اب مجھے بتائیے کہ اس ” ہیرا منڈی ” کے مجاور کون ہیں ؟
یہاں سے بزنس کے واسطے “مال” کون لے جاتا ہے ؟
اسی “مال ” سے اپنے اخبارات کے رنگین صفحے کون سجاتا ہے ؟
پھر انہی صفحات سے ” ہیرے” چن چن کے راتوں کو رنگین کون کرتا ہے ؟
پھر اسی منڈی سے ” مال مویشی ” اکٹھا کر کے سٹیج ڈرامے پر کون نمائش لگاتا ہے ؟
اچھا اس کے بعد ان عورتوں کو ” پاگل بنانے کے لیے ” فنکار ” کا معزز لقب کون دیتا ہے ؟
اس کے بعد انہی عورتوں کو اپنی ٹی وی چینلز میں بھرتی کر کے کون ان کے بدن کی کمائی کھاتا ہے ؟
پھر اس کے بعد انہی عورتوں کو پاگل بنانے کے لیے ، کہ وہ اپنی برہنگی کا سوچ ہی نہ سکیں ، اس “دلّال ” طبقے کے پاس ایک اور حل ہوتا ہے …وہ ہے “فیمینزم ” کا نعرہ –
اور عورت ننگی ہے ، بظاہر اپنی مرضی سے کسی کے بستر پر لیٹتی ہے – عورت ایک کے بعد اپنے جسم کا عضو دکھانے کو بیتاب ہے …اور دلّال کی زبان بول رہی ہے کہ :
“میرا جسم ہے میری مرضی ہے …مولوی کون ہوتا ہے کہ جو مجھے کہے کہ:
“ڈھانپ کے رکھ ”
میں ننگی پھروں ، کسی دوست سے ملوں ، ہاں اپنی مرضی سے ملوں ..کوئی کون ہوتا ہے جو مجھے روک سکے ”
لیجئے وہی عورت بازار حسن میں طوائف بنی ، اخبار کے مرکزی صفحے سے اس کی مارکیٹ بنی ، اچھی قیمت لگی تو اچھے بستر پر پہنچی .. دلّال نے پیسے کھرے کیے اس کی قیمت وصول کی ، کبھی
اینکر بنا کے ، کبھی کاونٹر پر سجا کے ، کبھی اشتہار میں چلا کے ، کبھی بس میں ہوسٹس بنا کے اور کبھی ہیرون بنا کے …….ہر کھیل اس نے مرد کی مرضی کا کھیلا ، اس کو قدم قدم پر پاگل بنایا گیا اور وہ بے وقوف یہ سمجھتی رہی کہ
” میرا بدن ہے ، میری مرضی ہ
[starlist][/starlist][facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]