کالم نویس :طیبہ عنصر مغل راولپنڈی
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں،ان سے قدمسے قدم
ملا کر ، باوجود کانگریس کی تمام ترسازشوں اور انگریزوں کی جانبداری کے، بر صغیر کے مسلمانوں نے بالاآخر ایک علیحدہ وطن حاصل کر ہی لیاتھاتاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق امن و سکون سے زندگی گزاریں اور وہ مذہبی وسماجی احترام اور معاشی خوشحالی حاصل کریں جو انہیں ہندوستان میں متعصب ہندوؤں کی اکثریت تلے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کا شہری بننے والا ہر شخص اپنا اپنا تصور پاکستان رکھتا تھا اور آج بھی رکھتا ہے۔ کوئی پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام چاہتا ہے تو کوئی پاکستان کو فلاحی اور روشن خیال ریاست دیکھنے کا خواہاں ہے تو کوئی پاکستان کو جدید جمہوری ریاست بنانے کا خواہاں ہے۔ سب کے تصورات اور نظریات منفرد اور قابل احترام ہیں لیکن ان تمام تصورات و نظریات اور نظام سے قطع نظر بحیثیت قوم جو ریاستی اجزائے فکر وعمل د رکار ہیں وہ خلوص نیت، مصلحت سے پاک قیادت، ایمانداری، خوداحتسابی، نظم و ضبط، آئین و قانون کی پاسداری ، باہمی سماجی ،اتحاد و اتفاق اور دیگرمذاہب و عقائد کا احترام ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں موجود ان تصورات اور نظریات کے حامل افراد و جماعتوں کے قول و فعل کے تضادات نے ملک کو اسلامی رہنے دیا اور نہ ہی جمہوری اور فلاحی مملکت۔اسلامی نظام کے خواہشمندوں نے فرقہ ورانہ جماعتیں بنا ڈالیں، غیر جمہوری قوتوں کی ہمنوائی کی اور ان کے آلہ کار بنے، ملک کو جمہوری دیکھنے والوں نے خو د اپنی جماعتوں میں غیرجمہوری روایتیں پیدا کیں اور ہر جمہوری اصول کی نفی کی۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے والے ملک کے و سائل کو لٹتا دیکھتے رہتے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے۔فکری انتشار اور باہمی عدم اعتمادکا یہ عالم ہو گیا ہے کہ ڈیم بنانا ہو یا صوبے بنانا ہو ، بلدیاتی نظام کیسا ہویا تعلیمی نظام کیسا ہو چھوٹے سے بڑے فیصلے تک ہم بحیثیت قوم کہیں اتفاق رائے پہ چلنے کے قابل نہیں رہے ۔اختلاف رائے ہم سب کی عادت بن چکی ہے بات بات پہ نکتہ چینی اور دوسروں پہ کیچڑ اچھالنا فرض اولین بن چکا ہے ،ہر سطح پہ ایک دوسرے کی بات کو رد کرنا معمول زندگی بن چکا ہے
ہر یوم آزادی (یوم پاکستان)زندہ اور بیدار قوموں کے لئے ایک سنگ میل ہوتا ہے ایک ایسی ترغیب جو ہماری زندگی کی راہوں کے لیے درست سمت متعین کرتا ہے تاکہ اس دن وہ ٹھہر کر ایک نظراپنے گزرے ہوئے کل پر ڈالیں ، سرزد ہونے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں اور آئندہ کے لئے ان غلطیوں کے ارتکاب سے گریز کریں۔لیکن افسوس ایسا ہو نہیں رہا ہے ہم عادی ہوچکے ہیں اپنی انا کے زعم میں صرف خود کو درست ثابت کرنے کے ،ملک کو اس کے قیام کے بعد حالات و واقعات نے منزل مقصود سے دور کردیا۔ ریاستی اجزائے فکر وعمل کو پس پشت ڈالنے کے باعث ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کی جڑوں میں بے یقینی ، خودغرضی اور اجتماعی بے حسی رچ بس گئی ہے۔ ان خامیوں نے ہمارے قومی وجود کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ہم اپنا قومی تشخص بھول چکے ہیں بات بات پہ بھڑکنے والی جذباتی قوم بن چکے ہیں ہمیں ان تمام قومی بیماریوں سے چھٹکارا پانا ہو گااگر ہم ایک قوم کے طور پر باقی رہنا چاہتے ہوں۔انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی طور پہ سوچنا ہوگا
ایک اور یوم پاکستان ہمیں پھر سوچنے کا موقع فراہم کررہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی حاصل نہیں ہوئے ، جو زندگی گزارنے کے لئے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی صرف خواب ہے،جسے حقیقت بنانا ہےجو معاشی آزادی چاہتے تھے اس کی منزل ابھی کوسوں دور ہے۔اس کے لئے دن رات محنت کرنا ہے ،ہاتھوں میں پکڑے کشکول کو توڑنا باقی ہے خود کفیل ہونا ہےاس خطے میں ہم اپنے پڑوسی ممالک سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔ ہمیں پڑھنا ہے۔۔۔ آگے بڑھنا ہے ۔۔۔۔۔ خود کو بدلنا ہے۔۔۔ اپنی منزل پانے کے لئے۔۔۔۔ اپنی رفتار بڑھانی ہے اور تیز دوڑنا ہے۔۔۔ جوش کے ساتھ۔۔ لیکن ہوش میں رہ کر۔۔۔۔۔
فیصلہ کرنا ہے یوم پاکستان کی قرار داد کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی کو ڈھالنا ہے قائداعظم کے 23مارچ 1947کے خطاب کے تناظر میں انفرادی نہیں اجتماعی ترقی کے لیے آگے بڑھنا ہے ،سوچوں کے دھارے اس دن کے مطابق موڑنے ہیں محض ایک دن کو اس طرح منا کر اس کی یاد تازہ نہیں کرنا ہے بلکہ سارا سال اس کے رہنما اصولوں کو اپنانا ہے تب پا سکیں گے ایک مضبوط پاکستان ایک مستحکم ملک ،تو سوچیے ایک دن کے لیے نہیں ،پوری عمر کے لیے ،سلامت رہیے ،
پاکستان زندہ باد ،پائندہ باد یوم پاکستان مبارک تمام اہل وطن کو ،
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]