تعلیمی اداروں کی بربادی کی وجوہات، تجاویز، حل

قسط 1
تحریر؛  عنایت اللہ رگام
11 اقساط پر مشتمل تحریر
تعلیمی نظام کو بہتر بنانے، تعلیمی تناسب میں اضافے کی بات ہوتی ہے بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں وسائل کے بغیر یہ سب ناممکن ہے ہم یہ نہیں سوچتے ہیں جو وسائل دستیاب ہیں یہ صحیح، ایمانداری، سے خرچ ہو رہے ہیں کہ نہیں اگر صحیح خرچ ہو رہے ہیں تو وسائل کی ضرورت ہے اگر نہیں کرپشن کے نظر ہو رہے ہیں تو کرپشن کی روک تھام کیلئے ایسی پالیسیاں ہو بدعنوان عناصر سیدھی جیل میں چلے جائیں پھانسی جیسی سزا ان کو ملنی چاہیے آنے والے بد عنوانی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں سزا و جزا اور اچھی پالیسیاں وضع نہ ہونے سے اعلیٰ عہدوں پر فائز دولت مند بننے کیلئے کرپشن کرنے میں لگ جاتے ہیں ادارے غریب بن کر زبوں حالی کا شکار ہو کر برباد ہو جاتے ہیں تمام اداروں کی بربادی ہمارے سامنے ہیں ایک بھی ادارہ ایسا نہیں جس پر فخر کی جائے ایماندار وزیر، آفیسر ہو ایک دو مہینے کے اندر ادارے ٹھیک ہونے لگے گے اس کی واضح مثال خضدار کا سابقہ ڈی سی وحید شاہ ہے ایک ایماندار، خدا ترس آفیسر نے ضلعے کا چارچ سنبھالا خضدار کو امن کا گہوارہ بنا دیا تمام سرکاری ملازمین اپنے ڈیوٹیاں دینے لگے وقت پر جاتے وقت پر چھٹی کرتے کون کہتا سرکاری ملازمین ڈیوٹی نہیں دیتے ہیں کرپٹ، یا نا اہل لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں بات تعلیمی اداروں کی پسماندگی کی ہو رہی ہے محکمہ تعلیم میں مڈل ہائی اسکولوں کے ایس ایس ٹی ترقی کرکے آفیسر بن جاتے ہیں وہ آسامیاں سالوں تک خالی رہتے ہیں  آسامیاں خالی ہونے سے مڈل، ہائی اسکول شدید متاثر ہو رہے ہیں دوسری وجہ محکمہ تعلیم میں آفیسران کی تعداد بہت زیادہ ہے پہلے ایک ڈی ای او، ایک دو ایس ڈی او کے ساتھ پورے ضلعے کو سنبھالتے تھے اب آفیسران کی تعداد زیادہ ہے اور ایک ضلع میں، ایک DOE ایک DDOE اور ایک ADDOE  ہے  ضلع خضدار کو لے لیں خضدار میں ڈویژنل ڈاریکیٹر، ایک ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن، چار ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن، پانچ ایڈیشنل ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ایجوکیشن، 13 سے زیادہ سرکل سپروائزر، 13 کے قریب ایڈیشنل سپروائزر ہیں یہ کمیشن پر نہیں ترقی کرکے آئے ہیں ان اساتذہ کے ترقی کرنے سے بہت سے اسامیاں خالی ہوتے ہیں ان آیسران کے دفتر اور عملے ہوتے ہیں ہر دفتر



میں کم ازکم چھ لوگ ہوتے ہیں ہر دفتری عملے میں ایک ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر، ایک ایڈیشنل، چار سپروائزر، دو سے زیادہ کلرک وغیرہ ان کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ٹیچر ہے ہر ضلع میں کم ازکم 30 سے زیادہ اساتذہ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں اتنے قریبی ساتھی ۔بلوچستان میں ان کی تعداد ہزار کے قریب ہیں یہ اپنے مرضی سے ڈیوٹی دیتے ہیں سینکڑوں اساتذہ سیاسی جماعتوں کے ہیں سیاسی جماعتوں میں عہدے دار ہیں ہزارکے قریب ٹیچر ایسوسی ایشن کے عہدے دار ہیں ہزار کے قریب ان کے ساتھی ہیں سینکڑوں کے قریب قبائلی سربراہوں کے رشتہ دار اور بندے ہیں محکمہ تعلیم کے آفیسران غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے آفیسر بااثر اساتذہ کو غیر حاضر نہیں کر سکتے ہیں
دوسری وجہ امتحانات کی غلط شیڈول میٹرک، ایف اے، بی اے کے امتحانات تعلیمی سال کے دوران ہوتے مثلاً میٹرک کے امتحانات فروری کے 20 تاریخ میں شروع مارچ کے آواخر میں ختم ہوتے ہیں جون میں نتائج شائع ہوتے ہیں امتحانی فارم دسمبر میں فل ہوتے ہیں گرم علاقوں کے علاقوں میں سالانہ تعطیلات جون میں ہوتے ہیں گرم علاقوں کے تعلیمی سال ستمبر میں ہوتے ہیں دسمبر میں فارم فل ہوتے ہی طلبا کلاس لینا چھوڑ دیتے ہیں یعنی دسمبر سے لیکر ستمبر تک 10 مہینے تک طلبا گھر میں بیٹھتے ہیں 300 دن طلبا کی ضائع ہوتی ہے
سرد علاقوں کے چھٹیاں دسمبر سے فروری ت75 دن چھٹی ہوتے ہیں سرد علاقوں کے طلبا کی سات مہینے تک قیمتی وقت ضائع ہو جاتے ہیں
تیسری وجہ وقت پر درسی کتب، رائٹنگ مٹریل فراہم نہیں کرتے ہیں 10،15 دن بعد درسی کتب، 6 مہینے بعد اگست، ستمبر میں رائیٹنگ مٹریل فراہم کرتے ہیں کھبی ہم نے سوچا ہے سال کے 365 دنوں میں کتنے چھٹیاں کتنے دن اسکول کھلتے ہیں سرد علاقوں کے مڈل، ہائی اسکولوں متحانات 20 نومبر سے شروع ہوتے ہیں امتحانات شروع ہوتے ہی پڑھائی بند ہوتے ہیں فرسٹ مارچ تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے پڑھائی 10 مارچ یا 20 مارچ میں شروع ہوتے ہیں 20 نومبر سے 20 مارچ تک ایک سو بیس دن(120) پڑھائی بند، دو عیدوں کی 10 چھٹیاں، 10 دن موسم سرما کی چھٹیاں 40 اتوار، 8 قومی تعطیلات، 25 اساتذہ کے اتفاقیہ رخصت، ہر مہینے کی فرسٹ تاریخ کو تنخواہ کیلئے بینک جانا، 9 دن ہوئے، یہ ہو گئے 212 دن، 40 جمعے آدھی چھٹی 40 دن آدھی چھٹی ہونے سے تین مضامین کے پیریڈ نہیں لگتے ہیں مردم شماری، انتخابی فہرستوں کی نظرثانی، الیکش ڈیوٹی، میڈیکل رخصت کے علاوہ یہ بھی چھٹیاں ہیں یہ تو مڈل، ہائی اسکولوں کی بات ہے پرائمری اسکولوں کی کیا بات کروں، ہاں ایک اور بات ہے اساتذہ سروس بک، جی پی سلپ  وغیرہ کیلئے دفتروں کے چکر کاٹتے ہیں
سیاسی پارٹیاں، این جی اوز، طلبا تنظیمیں، سماجی کارکن سیمینارز منعقد کرتے ہیں تعلیم کی گرتی ہوئی ذمہ دار کون، طلبا، اساتذہ، حکومت، صورت حال سب کے سامنے ہے ذمہ دار کون ہے سب اچھی طرح جانتے ہیں ذمہ دار کون ہے سیمینارز منعقد کرنے والے عوام کو بے وقوف بناتے ہیں پیسے کی خاطر ایسے پروگرام منعقد کرتے
( جاری)

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *