تعلق جتنے بھی عہد شباب میں تھے
ایک جھر مٹ تھا میرے گرد کچھ اسطرح
فلک پہ تا رے حلقہ مہتاب میں تھے
دشت صحرا سبھی گزر گاہوں سے میں گزرا
پڑ ھے سبق جو محبت کے نصاب میں تھے
شاہراہ مستقیم پر زندگی گزاری پھر بھی
گناہ زیا د ہ میرے حاصل ثواب میں تھے
میں جنہیں اخلاص کا پیکر سمجھتا رہا
دغا و فریب سارے انہیں خانہ خراب میں تھے
لٹا دیا قیمتی وقت زندگی کا را ہ وفا میں
خزانے ختم ہوگئے جو مال و اسباب میں تھے
گزر گیا وقت کہ لمحے بھی صدیاں لگتے تھے
بن ان کے ہم مثا ل ماہی بے آب تھے
گھڑ یاں ساری بیت چکیں اب انتظار کی
ہم منتظر ، پر یشا ن ، بڑ ے بیتاب تھے
رخ ہی بدل گیا یکسر میرے خیالا ت کا بہادر
ڈو ب گئے سپنے جو چاہتوں کے آفتاب تھے
مہر غلام نبی بہادر
گوجرانوالہ