لبوں کو سی لیا پھر بھی شکایت ہو گئی آخر
ترے گالوں کو چھونے کی شرارت ہو گئی آخر
سنو جاناں ترے نقشِ قدم کے سب وسیلےسے
مجھے اب شعر کہنے میں سہولت ہو گئی آخر
ترے شیریں بدن کو سوچتا رہتا ہوں گھنٹوں تک
مجھے لگتا ہے یوں تجھ سے محبت ہوگئی آخر
مری سانسیں ترے اب نام پر چلتی ہیں رکتی ہیں
مرے دل پر تری ایسی صدارت ہو گئی آخر
خیالِ یار مجھ سے در گزر کرنا شبِ یلدا
تجھے ملنے سے قاصر ہوں حماقت ہو گئی آخر
میں اپنی چاپ سنتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں شاموں کو
مجھے اپنے ہی سائے سے بھی وحشت ہو گئی آخر
کوئی تعویز دھاگا یا کوئی جادو بتاؤ گے عزیزو
یہ حکومت بھی نحوست ہو گئی آخر