تعلیم مفت مگر ایک شرط پر 

قسط 4

تحریر؛  عنایت اللہ رگام
سالانہ درسی کتب کی چھپائی، سیل ٹیکس، ٹرانسپورٹ خرچے پہ کرڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ہر سال درسی کتب کی چھپائی بروقت فراہمی مسلئہ بنا ہوا ہے جب سے بلوچستان میں تعلیمی بجٹ کو چار فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد اضافہ کیا گیا ہے تعلیمی سال کے آغاز کے دس سے بیس دن بعد درسی کتب فراہم کرتے آ رہے ہیں 2014 سے پہلے ایک سے ڈیڑھ ماہ بعد درسی کتب فراہم کرتے بچوں کے قیمتی وقت  ضائع بھی ہوتا، کتابیں ہمیشہ نامکمل دیتے تھے نامکمل کتب کی فراہمی کا سلسلہ اب تک جاری ہے امسال بھی اعلیٰ اور سوئم کی کتابیں نامکمل دیئے ہیں ان تمام جنجھٹوں سے جان چھڑانے، کروڑوں روپے کی بچت کیلئے تجاویز دے رہا ہوں ان مراحلوں سے ہم گزر چکے ہیں پہلے ہم سے جو اگلے کلاس میں تھے ہم ان کی کتابیں آدھی قیمت پر خریدتے تھے ہماری کتابیں آنے والے خریدتے تھے تعلیم سال شروع ہوتے ہی پڑھائی شروع ہو جاتا 2004 سے پہلے بلوچستان میں نہیں پورے ملک میں پانچویں تک تعلیم مفت، یعنی درسی کتب مفت میں تقسیم کرتے تھے چھٹی سے ایم اے تک طلبا وطالبات کتابیں خریدتے تھے 2004 میں جنرل الیکشن کے بعد صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت بنی، جماعت اسلامی کے موجودہ سربراہ سراج الحق صوبائی وزیر خزانہ تھا ایم ایم اے کی پہلی صوبائی بجٹ میں میٹرک تک مفت تعلیم دینے کا اعلان کیا اور درسی کتب کیلئے بجٹ مختص کیا، ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کی دیکھا دیکھی باقی صوبائی کی  حکومتوں نے میٹرک تک بھی  مفت تعلیم دینے کا اعلان کیئے اب تک مفت درسی کتب کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے ہمیشہ درسی کتب نامکمل  فراہمی کا سلسلہ جاری ہے جب 2013 سے پہلے بلوچستان میں تعلیمی بجٹ چار فیصد تھا ڈاکٹر مالک بلوچ  صوبائی وزیر اعلیٰ بنا تعلیمی بجٹ کو چار فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کردیا، مسائل وہی جوں کے توں ہیں اسکولوں کو سہولتیں دینا اپنی جگہ بچے کھلے آسمان تلے پڑھ رہے ہیں تعلیمی بجٹ 24 سے 100 فیصد کردیا جائے مسائل  حل نہیں ہوں گے اس لیے جن کے پاس اختیارات ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں تعلیمی ادارے ٹھیک ہو، جو تجاویز دے رہا ہوں ان کے فائدے کیلئے دے رہا ہوں جتنے پیسے بچت کریں گے اتنا یہی زیادہ کمائیں گے



چوتھی سے دھم تک بچوں کو پہلی دفعہ کتابیں مفت میں دی جائے دوسرے سال میں اساتذہ طلبا سے کتابیں آدھی قیمت پر خریدیں جو بچے اپنے کتابوں کو سنبھال کر  حفاظت کرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہو ان کی کتابیں آدھی قیمت میں خریدی جائے ان کو کاپیاں، قلم، روشنائی وغیرہ مفت میں دی جائے جو طلبا کتابوں کی سنبھال کر نہیں رکھتے ہیں ان کو کتابیں آدھی قیمت پر دی جائیں ان کو کاپی، قلم، وغیرہ نہ دی جائے کتابوں کی حفاظت نہ کرنے والے طلبا کی حوصلہ شکنی ہو گی آئندہ یہ بچے اپنے کتابوں کی حفاظت کریں گے کتابوں کی حفاظت کرنے سے ہر سال درسی کتب کی چھپائی کی ضرورت نہیں پڑے گا اسکولیں کھلتے ہی تعلیم سال کا آغاز ہو گا سرکار ہر سال کتابوں کی چھپائی، سیل ٹیکس، ٹرانسپورٹ کے کرائے دینے پر  پیسہ نہیں دینا پڑے گا ہر سال کروڑوں روپے کی بچت ہو گی بچت کے پیسوں سے سے طلبا کو وظیفہ کی صورت میں دی جائے کچی سے تیسری تک طلبا کو تین سو روپے، چوتھی سے پانچویں تک پانچ سو روپے، چھٹی سے آٹھویں تک آٹھ سو روپے، نہم تا دھم ہزار روپے دی جائے جو طلبا بورڈ کے امتحانات میں 70 فیصد نمبر لیکر پاس ہو طلبا، ٹیچر، والدین کو انعام دی جائے پانچویں جماعت میں 70 فیصد نمبر لینے والے کو پانچ ہزار، آٹھویں جماعت 70 فیصد لینے والے کو آٹھ ہزار، میٹرک پاس کرنے والے کو دس ہزار، روپے دی جائے پورے صوبے فرسٹ، سیکنڈ، تھرڈ  پوزیشن لینے والے طلبا کو زیادہ انعام دیا جائے جس اسکول کے پانچویں، آٹھویں، میٹرک جماعت کے 70 فیصد نمبر لیکر 70 فیصد پاس ہو اس اسکول کے ھیڈ اور اس کے اساتذہ کو انعام دی جائے طلبا کو وردی، بستہ، صوبائی حکومت مفت میں دیں وہ بھی عید کے موقعے پر پھر اسی کو کہتے ہیں تعلیم مفت، نامکمل کتابیں دینے سے تعلیم مفت نہیں ہو گا درسی کتب، ریڈنگ، رائیٹنگ مٹریل، بچوں کو جیب خرچ دینے سے تعلیم مفت ہوگا ان سہولیات دینے کے بعد دیکھا جائے کتنے بچے اسکول میں کتنے بچے اسکول سے باہر ہوں گے بچوں کو وظیفہ کے نام سے پیسہ ملیں والدین کو انعام کے نام پیسہ ملیں کوئی بھی بچہ اسکول سے باہر نہیں ہو گا بچوں کا بچوں کے ساتھ مقابلہ ہوگا، والدین کا والدین کے ساتھ، ٹیچر کا ٹیچر کے ساتھ مقابلہ ہو گا کوشش یہ ہونا چاہیے کوئی بھی بچہ، کوئی بھی والدین، کوئی بھی ٹیچر انعام سے نہ رہ جائیں کچھ نہ کچھ انعام ملنا چاہیئے، علم حاصل کرنے کے ساتھ تعلیمی ادارے روزگار کا ذریع ہو
( جاری)

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest][starlist][/starlist]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *