تحریر: عبدالہادی قریشی
ای میل: abdulhadiqureshi5@gmail.com
انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کچھ بھی کر سکتا ہے میری زندگی کا ایک تجربہ ہے کہ اگر انسان کو لالچ دیا جائے کھانے پینے کا جبکہ اُس کو روزگار پینے کے صاف پانی اور علاج معالجہ کی ضرورت ہو تو وہ اپنی ضروریات کو پس پشت ڈال کر کھانے کی طرف دوڑ پڑے گا میری مُراد ہونے والے ملکی انتخابات 2018سے ہے انسان کی خواہشات کبھی نہ ختم ہونے والی ہوتی ہیں الیکشن میں عوام الناس اپنی خواہشات و اُمنگوں کو لیکر سیاسی جلسوں میں جاتے ہیں عوام الناس کا سیاسی جلسوں میں جانے کا
مقصد کچی گلیوں کا پکا کروانا ہو، نالے بنوانا ہو، سڑکوں کی نئی مرمتیں کرونا ہو یا کسی بے روزگار نوجوان لڑکے یا لڑکی کو سرکاری باعزت روزگار دلوانا ہو تا ہے سیاسی رہنما کردارو اخلاق کے جیسے بھی ہو وہ عوام الناس کو بھرے مجموعے میں متاثر کرنے سے فَن سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں سیاسی رہنماؤں کے جلسہ گاہ میں آنے کا انداز اس قدر شہانا و مغل بادشاہوں کی طرح کا ہوتا ہے کہ ایک غریب آدمی سیاسی لیڈر کی تقریر شروع کرنے سے قبل اُس سیاسی رہنما کی زبان سے حروف نکلنے سے پہلے ہی یہ اُمید کرلیتا
ہے کہ یہ بندہ میرے اور میرے علاقے کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
اور مالی لحاظ سے بھی کافی مضبوط نظر آتا ہے میری تحقیق کے مطابق سیاست میں کسی
شخص سے اَپنا ووٹ حاصل کرنا صرف نفسیات کا کھیل ہے سیاسی رہنما چاہے وہ کوئی
بھی ہو اُن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوبظاہر پارسا و نیک سیرت معلوم ہوتے
ہو مگر اُنھیں عوام الناس اور سب سے بڑھ کر جلسے میں اپنے سُننے والے حاضرین اپنے
سامنے بیٹھے سامعین و حاضرین کی نفسیات کو جاننے کا فَن ہوتا ہے اگر سیاست میں انسانی نفسیات کا کھیل نا ہوتا توجھوٹے نعرے و دھوکہ دہی پر مبنی وعدے کرنے والوں کے پیچھے عوام کبھی نہ بھاگتی اور جلسہ گاہ خالی ہوتے سیاسی رہنما عوام الناس کو جلسے کے
اختتام پر ایک عدد بریانی کی پلیٹ دے کر خوش کر دیتے ہیں مگر یہاں بریانی دینا اور
عوام کا ایک عدد جھوٹے وعدے کرنے والے کرپٹ سیاستدان کے جلسے کی بریانی
کھا لینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ 100لوگوں میں سے 20لوگوں کے ووٹ اُس
سیاستدان کے ساتھ ہوگئے ہیں کیونکہ 100میں سے 20جو اُس ایک سیاست دان کے ووٹر بنے وہ ایک بار بریانی کھا لینے کے بعد اُس کی تقریروں پر مثبت تبصرہ کریں گے اور دوبارہ دوستوں و رشتہ داروں کے ہمراہ اُس سیاسی بندے سے دوبارہ میٹنگ کرکے اپنے علاقے کے مسائل انفرادی طور پر بتانے پر غور کریں گے وہی 20لوگ
اُس سیاسی لیڈر کی بریانی کی تعریفیں کرکرکے تھک جائیں گے مگر بریانی کی تعریفیں
اختتام پذیر ہونے کا نام تک نہیں لیں گی جلسے میں آئے ہوئے وہی20لوگ اُس سیاسی لیڈر کے نعرے لگانے والے بھی بن جائیں گے
اب یہاں نفسیات کا تعلق سیاست سے اور سیاست کا واسطہ براہ راست انسانی نفسیات سے ہی ہے
سیاست دان جس علاقے یا شہر میں لوگوں سے ووٹ مانگنے جاتا ہے وہاں کے
لوگوں کے مسائل کو پہلے معلوم کرکے اور اُس علاقے کا ماضی ، حال کا پتہ
کرکے جاتا ہے جلسہ کرنے اور سیاست دان نے جو جھوٹے سچے وعدے کرنے سے اُس علاقے کی عوام سے
وہ ماضی و حال معلوم کرکے اچھے اعلیٰ قسم کے وعدے کرتا ہے عوام بھی واہ واہ کرتی اور ناچ گانا شروع کر دیتی ہے
جب سے پاکستان بنا ہے قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کو ایسی کوئی قیادت نہیں ملی میری تحقیق کے مطابق
جو پاکستان کی عوام کے مسائل کو حَل کر سکے میرے نظریات کے مطابق عوام الناس جس دن خالصتاََ اپنے مسائل کو حل
کروانے کے لیئے جلسوں میں نہ جائے بلکہ سیاسی لوگوں کو انتخابات سے پہلے میٹنگ کروا کر مسائل حل کروائے تب
مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے
ذہنی غلام عوام کے لیئے انتخابات بریانی کھانے کا موسم ہوتا ہے اُس کے بدلے وہ اپنا ووٹ دے دیتے ہیں
اللہ تعالیٰ عوام الناس پراور پیارے پاکستان پر اپنا رحم و کرم فرمائے آمین
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]