سنو
اب کے جو تم ملنے آؤ گے
بہت سی باتیں کرنی ہیں
کچھ اپنی کہانی کہنی ہے
کچھ قصے تمھارے سننے ہیں
اس بار جو ملنے آؤ تو
پھر لوٹ کے تنہا مت جانا
کچھ شعر ہمارے لے جانا
کچھ نغمے اپنے دے جانا
دسمبر کی سرد شاموں میں
لمبی کالی راتوں میں
جب یاد تمھاری ستائے گی
اور نیند ہمیں نہیں آئے گی
ہم ان نغموں سے اپنا دل بہلایں گے
اک بات کہوں جانا
ہم تم کو بھی یاد بہت آئین گے
زرنین مسعود
[11:22PM, 3/31/2018] Zareen Wrtr: زرد گلاب
سنو جاناں اگر سن سکو تو
یہ خاموش رستے
تمھیں یاد کرتے ہیں
مجھ سے فریاد کرتے ہیں
وہ بوڑھا شجر
جیس کے سائے میں
ہم پہروں بات کرتے تھے
اسکے سینے میں دفن کھنکتی میری ہنسی
اب سسکیاں بن کے ابھرتی ہیں
سنو
کچھ وقت دوگے پھر
تمھیں اک قصہ سنانا ہے
وہ جو بیتا زمانہ ہے
وہ پڑوس کی بوڑھی نانی
جو کہانی کہتی تھی
ہمیں ساتھ رہنے کی
دعائیں دیتی تھیں
اب انکی آنکھوں میں
روشنی تو نہیں
صرف نمی جھلکتی ہے
دعا تو وہ اب بھی دیتی ہیں
اب ان دعاؤں میں
تم شامل نہیں ہوتے
سکول کی گھنٹی اب بھی بجتی ہے
پر اسکول کے باہر اب تم نہیں ہوتے
سنو کچھ یاد ہے تم کو
uبچپن کیسے گزرا تھا
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
ہم جس رستے پہ چلتے تھے
وہاں زرد گلاب کھلتے تھے
وہ پھولوں بھرا رستہ
زرد گلابوں سے بھرا رستہ
اب بھی یاد کرتا ہے
مجھ سے فریاد کرتا ہے
سنو اک بات اور کہنی ہے
جو تم نے دئے تھے زرد گلاب سارے
وہ آج بھی میری کتابوں میں محفوظ ہیں
سنو اب لوٹ آؤ نا
مجھے بھی تم یاد آتے ہو
جب خاموش رستے
برگد کی چھاؤں
نانی کی دعائیں
وہ پھولوں بھرا رستہ
زرد گلابوں بھرا رستہ
مجھ سے فریاد کرتے ہیں
سنو اب تو لوٹ آؤ نا
وہ اسکول کی گھنٹی
وہ پھولوں بھرا رستہ
سب ملکر مجھکو چڑاتے ہیں
تمھاری یاد دلاتے ہیں
سنو جاناں محبت کی قسم تمکو
اب تو لوٹ آؤ نا
اب تو لوٹ آؤ نا
سیدہ زرنین مسعود
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]