وہ روز جاتا ۔۔۔ زنجیرِ عدل ہلاتا ۔۔۔
اسے انصاف کی تلاش تھی ۔۔۔
کوئی شنوائی کو نہ آتا ۔۔۔
وقت گزرا ۔۔۔ محنت کی ۔۔۔
عمارت میں پہچنے کا حق حاصل کیا ۔۔۔
باہر زنجیر ہلانے والوں کا جم غفیر تھا ۔
اندر پہنچ کر معلوم ہوا زنجیرِ عدل کی آواز اندر نہ آتی تھی ۔۔۔
عمارت ساؤنڈ پروف تھی ۔۔۔
عروج احمد
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]