ضروری اعلان …ہمارا بو علی سینا گم گیا …

کتاب سے محبت اور اس محبت کی افادیت پر ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی ایک اچھوتی تحریر ….
بخارا کا ایک بادشاہ کسی مرض میں مبتلا ہو گیا۔
شاہی طبیب نے بہت علاج کیا لیکن مرض کی شدت میں کمی نہ آئی۔چنانچہ شاہی طبیب نے اعلان کرادیا کہ جو شخص بادشاہ کا علاج کرے گا اسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔ اعلان سُن کر بہت سے لوگ علاج کرنے کی غرض سے آئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ آخر ایک دن سترہ سال کی عمر کا لڑکا دربار میں حاضر ہوا،اس نے بادشاہ کا علاج کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ شاہی طبیب اسے دیکھ کر بولا:” بڑے بڑے حکیم بادشاہ کا علاج کر کے تھک گئے تم تو ابھی لڑکے ہو۔” یہ سُن کر لڑکے نے کہا:” میں تو اتنا جانتا ہوں کہ کوئی مرض لا علاج نہیں۔”آخر اسے علاج کی اجازت مل گئی۔علاج شروع ہوا۔
لڑکے کے علاج سے بادشاہ کے مرض میں کمی آتی گئی۔یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہو گیا۔ وہ بہت خوش ہوا اس نے لڑکے سے کہا: مانگو کیا مانگتے ہو:
اب ہر شخص کے ذہن میں تھا کہ یہ لڑکا ہیرے جواہرات مانگے گا، یا آدھی سلطنت کا مطالبہ کرے گا۔ لیکن لڑکے نے کہا:
” بادشاہ سلامت ! آپ مجھے اپنی لائبریری سے چند عظیم کتابیں پڑھنے کے لیے دے دیں۔” لڑکے کی خواہش سن کر سب حیران رہ گئے۔یہ سترہ سال کا لڑکا بعد میں عظیم مشہور طبیب ” بو علی سینا ” بنا۔
یہ ہمارا بو علی سینا تھا جس پر.ہمیں فخر تھا مگر آج اہل مغرب کے پاس بہت سے بو علی سینا ہیں کیون کہ انہیں پتہ چل گیا کہ بو علی سینا کیسے بنتے ہیں اس لیے انہوں نے کتاب کی محبت کو عام کر دیا آج ان کی کامیابی کا راز ہی یہ ہےکہ وہ لوگ کتاب سے محبت کرتے ہیں .ہماری نسل نو کتاب سے دور ہوتی جا رہی ہے.ہمارے بوعلی سینا سینما اور انٹر نیٹ کی نذر ہوتے جا رہے ہیں ہمارا البیرونی کہیں سوشل میڈیا کے اندھیروں میں گم گیا ہے ہمارا نیا ابن الہیشم أنکھ پر کام کیا کرے گا اس کی بصارت دنیا کی رنگینی میں کھو گیی ہے کیوں ایسا کیوں ہے . تو سنیے .عمومی طور پر کچھ احباب کو یہ کہتے سنا ہے کہ کتاب خرید کر کیا کرنا ہے انٹرنیٹ پر ہر قسم کا مواد کتاب موجود ہے لیکن جب میں ان سے پوچھتا ہوں آپ نے سیرت رسول پاک کی ایک کتاب بھی مکمل پڑھ لی ہے تو ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے . دراصل ہمارا نصاب تعلیم اور تعلیم کی پالیسیاں ہی ایسی بنی ہیں کہ بچپن میں نمبر اور کالج میں گریڈ یونیورسٹی میں سی جی پی اے ہم ان کے حصول کے لیے پڑھتے ہیں اور پڑھ کر پیپر دے کر سب پڑھے کو اللہ حافظ کہہ دیتے ہیں .مدارس کے طلباء کا بھی یہ ہی حال ہے بزم ادب کی تقاریر تیار کی اور بس جتنا نصاب میں بخاری مسلم کو پڑھا باقی نہیں .ایسی صورتحال میں کوی ابن سینا کہاں سے پیدا ہو .میں فیصل مسجد ایک میٹنگ کے سلسلہ میں بک شاپ کے مالک جواد رسول صاحب کے پاس بیٹھا تھا.تو ہماری نظروں کے سامنے ایک عورت نے اپنے ایک بچے کو گیند لے کر دی اور دوسرا بچہ بضد تھا کہانی کی کتاب کے لیے اس پر اسے زور دار طمانچہ پڑا .اس عمل نے ہمیں حیرت میں مبتلا کر دیا .گیند اس کتاب سے مہنگی ہونے کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ایسے حالات میں کتابیں فٹ پات پر بکتی ہیں اور جوتے شیشے کی دکان میں تو یہ کوی تعجب کی بات نہیں. والدین خود مصروف ہیں .اساتذہ کو کتاب کی لکھی عبارات کے سوا تربیت کا حق نہیں دیا جا رہا اور بتایا جا رہا ہے کہ آپ نوکر ہیں نوکری کریں بچے کے باپ مت بنیں تو ایسے میں کتاب ایک آخری اچھی دوست ہے ورنہ انٹرنیٹ اور میڈیا سے سیکھا بچہ ماں باپ کے پانی مانگنے پر ایک ہی جملہ بولے گا ..دیکھ نہیں رہے میں تھکا ہوا ہوں خود اٹھ کر پانی پی لیں. اپنے بچوں کو کامیابی پر کتاب تحفہ کیا کریں.اچھی کتاب.آسان کتاب.جو پڑھ کر بچہ مزید کتاب مانگے .اگر آپ کا انتخاب اچھا ہوا تو یقین جانیے .جس أخلاق .کردار اور عظمت کی آج کمی ہے وہ سب کتاب سے پوری ہو جاے گی آپ کا بچہ بھی معاشرے کابو علی سینا بن سکتا ہے. آپ کا.بچہ بھی ایک اچھا لکھاری بن سکتا ہے جس کے قلم کا سوز و ساز کسی بھٹکے ہوے کو اپنے رب کی بارگاہ میں لا کھڑا کر سکتا ہے. آپ خود بھی کتاب سے دوستی کریں .اچھی کتاب دنیا کے ایک ہزار دوستوں سے بہتر ہے جو آپ کے وقت کی قدر نہیں کرتے .یورپ نے نشاۃ ثانیہ کے بارے میں خواہ کتنے ہی جھوٹے دعوے کئے جائیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آداب زندگی اسلام نے سکھائے ، یورپ کا نشاۃ ثانیہ اسلامی علوم ہی کا مرہون منت ہے ۔ اس جانب حضرت اقبال کا اشارہ ہےکہ اپنے آباو اجداد کی وہ کتابیں ، وہ تصانیف ، وہ ایجادات وہ تحقیق و تجسس جو علم و حکمت کے بیش بہا موتی تھے انھیں یورپ میں دیکھ کر (ان سے استفادہ کرکے) آج مغربی ممالک نے ترقی کے تمام منازل طے کرلئے ہیں ۔ دوسری طرف عالم اسلام پر نظر ڈالیں توہمیں سخت مایوسی ہوتی ہے ۔ ہم نے کتنا بڑا اثاثہ کھودیا ۔ آج ہم کشکول گدائی لئے پھررہے ہیں ۔ علامہ اقبال کی زبانی یہ درد کچھ یوں ہے .
مگر  وہ  علم  کے موتی ،  کتابیں  اپنے  آبا کی
جو  دیکھیں  ان  کو یورپ  میں  تو دل  ہوتا  ہے  سیپارا
شکریہ .ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم ..
ڈاکٹر تبسم کی مزید عمدہ تحریریں اور انتخابات پڑھنے کے لیے فیس بک پیج کا لنک دستیاب ہے …https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/
ڈاکٹر صاحب کی تحریریں واٹس ایپ پہ حاصل کرنے کے لیے .ہمیں اپنا نام .شہر کا نام اور جاب لکھ کر اس نمبر پر میسج کریں . 03317640164.
شکریہ .ٹیم نالج فارلرن.

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *