تحریر عبدالواث ساجد
پیارے بچو!
السلام علیکم!بڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ بچپن کی عادت بڑھاپے تک جاتی ہے۔یعنی جو کام کرنے کی عادت بچپن میں ہو جائے وہ آدمی بوڑھا ہونے تک باقاعدگی سے کرتا رہتا ہے اس لئے تو کہتے ہیں کہ اچھی عادت اپنانی چاہیے۔اچھی عادتوں میں سے ایک عادت مطالعہ کی ہے اوراگر مطالعہ تاریخی کتب کا ہو تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔تاریخ چاہے قوم کی ہو ، ملک کی ہو،مذہب کی ہو یا ادب کی یہ سب کچھ یاد دلاتی ہے۔اس سے ہمیں خیر اور شر کا پتہ چلتا ہے۔بادشاہوں، راجائوں کے ظلم، ان کی دریا دلی، ان کا رعایا سے سلوک،ان کا انصاف غرض بہت ساری چیزیں ہمیں تاریخ سے ہی معلوم ہوتی ہیں۔جس کو پڑھ کر ہم اچھائی اور برائی، نیک اور بد،ظلم و انصاف کی بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں پر اگر غور کیا جائے تو بعض وقت ہمیں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ خدا نے کیسی کیسی شخصیتیں پیدا کیں،جن کی زندگی آنے والی نسلوں کے لئے ایک سبق ہے اور اس سبق میں کوئی کامیاب ہوتا اور کوئی ناکام۔مطلب یہ کہ جس نے پڑھ کر عبرت حاصل کی اس کا نتیجہ اچھا ہوگا،جس نے عبرت حاصل نہ کی تو اس کا نتیجہ تو آپ جان سکتے ہیں۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پڑھنے کی عادت بہت اچھی ہے ،جب بھی موقعہ ملے کچھ نہ کچھ پڑھیں ،پڑھ کر دوسروں کو بھی سنائیں تو ان کو بھی پڑھنے سے دلچسپی ہوگی۔