عید الفطر کی مسرتیں اور ہمارے اعمال

تحریر: عبدالہادی قریشی ، عرفان آباد ترامڑی اسلام آباد

عید الفطر بے شک اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر بہت بڑا تحفہ عظیم ہے ہر ہر مذہب
میں عید اُس کے مذہبی رسومات و عقائد کے مطابق منائی جاتی ہے عیسائی
لوگ اپنے مذہب میں دو عیدیں کرسمس اور ایسٹر منا کر اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ خوشیوں کا اظہار کرتے اور بھرپور طریقے سے خوشیاں مناتے ہیں
عیسائیوں کی کرسمس ہر سال کی 25سال کو آتی ہے جبکہ ایسٹر فروری سے
اپریل کے درمیان آتی ہے عیسائی ایسٹر کی عید منانے سے پہلے اپنے مذہبی
عقیدے کے مطابق 40روزے رکھتے ہیں جوکہ ایک روزہ 24گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی انعامات و اکرامات کی بارش برسانے کے لیئے اور مسلمانوں کے گناہ کبیرہ و صغیرہ کو معاف فرما دینے کے لیئے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ عطاء فرمایا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے وہ اپنے بندوں کو توبہ کی مہلتیں دیتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو تین عشروں کو تقسیم فرمایا ہوا ہے
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ، دوسرا عشرہ مغفرت جبکہ تیسرا عشرہ
جہنم کی آگ سے نجات کا عشرہ ہے
اس بابرکت مہینے میں مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیئے 16یا17گھنٹوں پر مشتمل روزہ رکھتے
ہیں جس میں کھانا پینا منع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
اے ایمان والوں تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جیسے
تم سے پہلے کہ لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو
رمضان المبارک میں قرآن پاک کا نزول ہوا قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے بے شک رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن پاک کا نزول
ہوا ہے



اس ماہ صیام میں ایک نیکی کا ثواب ستر گنا تک اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے اس
ماہ مُبارک میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں غریبوں و مسکینوں کی راشن و نقد
پیسوں سے مدد کرکے ثواب حاصل کرتے ہیں میرے نظریات کے مطابق
کسی غریب کی مدد کرنا کوئی بُری بات نہیں اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ غریبوں کی مدد کرنی چاہیئے اسلام وہ امن و سلامتی والا مذہب ہے کہ
یہ حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد پورے کرنے پر زور دیتا ہے
میں کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر دیکھ رہا تھا کہ
ایک غیر سرکاری تنظیم یا جسے این جی او بھی کہا جا سکتا ہے اُس تنظیم کے
10لوگ ایک غریب بوڑھی عورت کو آٹے کا تھیلہ دے رہے ہیں اور
10لوگ بوڑھی عورت کے ساتھ آٹے کی بوری پر ہاتھ رکھ کر تصویر فخریہ
انداز میں بنوا رہے ہیں
میں سوال کرنا چاہتا ہوں اُن افراد سے جو غریبوں کی مدد صرف نمود و نمائش کے لیئے کرتے ہیں کہ کیا عزت صرف آپ کے لیئے بھی مختص کردی گئی ہے
کسی غریب کی کوئی عزت کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے میں سوال نہایت ادب سے اُن علمائے کرام و مفیان کرام سے کرنا چاہتا ہوں جو دین اسلام آباد کا درس دیتے ہیں کہ اس عمل پر بھی فتویٰ لگائیں کہ کسی غریب کی عزت نفس کو سرعام اُچھالنا کتنی بُری بات ہے



صاحب! معاملہ یہ ہے کہ رمضان ہو یا کوئی بھی مہینہ ہر شخص اب نیکی
وہاں کرنا پسند کرتا ہے جہاں اُن کی نمود و نمائش ہو
یہ زمانہ وہ عجیب تر زمانہ آچکا ہے کہ لوگ کسی غریب کی اگر پیاس مٹانے
کے لیئے پانی بھی اُس غریب کو دے رہے ہوں گے تو ساتھ فوٹو سیشن
لازمی کروائیں گے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ عظیم المرتبت خلیفہ جنھوں نے
22لاکھ مربع میل پر حکمرانی کی آپ کا طرز حکومت یہ تھا کہ آپ
راتوں کو گلیوں، علاقوں کا بھیس بدل کر گشت کیا کرتے تھے اگر کسی
کسی گھر میں بچوں کے بھوک سے رونے کی آواز آجاتی تو خطاب کا بیٹا
عمرؓ فوراََ اپنے کاندھے پر راشن لاد کر اُس غریب کے دروازے پر
حاضر ہوا آپ ؓ کبھی یہ ظاہر نہ ہونے دیتے کہ ہم عمر ؓ تمہاری امداد کر رہا ہوں آپ ؓ کی سُنت یہی تھی کہ ایک ہاتھ سے نیکی کرتے تو دوسرے ہاتھ کو خبر تک نہ ہوتی مگر پاکستان میں ہر شخص کلمہ گو ہے صحابہ ؓ صحابہؓ کے نام کے نعرے لگاتے ہیں مگر مسلمانوں میں صحابہؓ کا کوئی ایک عمل بھی دیکھنے کو ملا نہیں ہے
ہر شخص رمضان المبارک کے بعد عید منانے کا خواہش مند ہوتا ہے
اور اللہ تعالیٰ کا حُکم واضح ہے کہ یہ عید فطرانے والی عید ہے یعنی اس عید
پر اپنا اور اپنے گھر والوںکا فطرانہ نکالواس بار اہلسنت کے نزدیک
فی بندہ فطرانہ 100روپے جبکہ اہل تشیع حضرات کے نزدیک150
روپے تھا
اب ہونا یہ چاہیئے کہ فطرانے کی رقم سے کسی غریب کو عید کے کپڑے لا کر دے دیئے جائیں کسی غریب بچے کے اگر جوتے نہیں ہیں نئے عید پر وہ
لاکر دے دیئے جائیں ضروری نہیں کہ نقد دیا جائے چیزیں وغیرہ فطرانہ
کی رقم تک دی جا سکتی ہیں



مگر یہاں بھی نمود و نمائش کا عنصر واضح ہے کوئی کسی غریب کو کپڑے دے رہا ہو گا اُدھر مدد کرنے والا سیلفی بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کر دے گا
میرے نظریات کے مطابق دور حاضر کے مسلمانوں میں سے اخلاص اور نیت کی پاکیزگی ختم ہوگئی ہے لوگوں نے مغرب کی روایا ت کو اپنا کر نفسانفسی
مطلب پرستی ، لالچ ، حسد اور اپنی شہرت کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہے
عید الفطر پر بے شک ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ہم سکون سے عید منا رہے ہیں
ہم گاؤں میں عید منائیں گے مگر میں سوال کرتا ہوں عبادات خداوندی
میں نمود و نمائش کرکے عید منانے والوں سے کیا آپ کو قبر ، حشر ، میزان
سوال و جواب ، منکر نکیر ، پل صراط ان سب سے خوف نہیں آتا ہے کیا
جناب اللہ کے ہاں وہی نیکی قابل قبول ہے جو خالص نیت پر ہو
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ( بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)
ہر کسی کو اپنے اپنے منصب پر رہتے ہوئے ٹھیک ہونا ہوگا آپس کے اختلافات
ناراضگیوں اور جھگڑوں ختم ہو گا
عید الفطر اصل میں اُسی کی ہوتی ہے جس کی نماز پنجگانہ ، نماز تراویح
روزے ، قرآن پاک کی تلاوت رب کی بارگاہ میں قبول ہوئے
عید الفطر اللہ کے ہاں اُسی کی ہے جس نے نیکی کی اور خالص رب
کی رضا کے لیئے ہی کی اگر نیکی میں غرو ر و تکبر کا عنصر شامل ہوگیا تو نیکی ساری
ضائع ہوگئی
اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کی سمجھ عطاء فرمائے اور ہمیں نمود و نمائش سے ہٹ کر خالص نیکیاں
کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][feedburner name=”Feed Name”][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *