تحریر: عنابیہ چودھری، اسلام آباد
کشمیر کی حالیہ تحریک کا ہیرو برہان وانی آزادی کی جدوجہد کی ایک علامت بن چکا ہے۔ اس خاک کے خمیر میں ایسی آتش چنار ہے جس کو سرد کرنا اب بھارت کے بس میں نہیں رہا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کا سفر پہلے رکا تھا اور نہ اب رکے گا۔ افضل گورو کی پھانسی اور اب برہان وانی کی شہادت نے اہل کشمیر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کشمیری ایک بار پھرتاریخی موڑ پرکھڑے ہیں۔ 1987ءکی انتخابی دھاندلیوں کے بعد شاید یہ پہلا واقعہ تھا کہ جس نے کشمیرکی عمومی نفسیات کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔
کشمیر کی حالیہ تحریک کا ہیرو برہان وانی آزادی کی جدوجہد کی ایک علامت بن چکا ہے۔ اس خاک کے خمیر میں ایسی آتش چنار ہے جس کو سرد کرنا اب بھارت کے بس میں نہیں رہا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کا سفر پہلے رکا تھا اور نہ اب رکے گا۔ افضل گورو کی پھانسی اور اب برہان وانی کی شہادت نے اہل کشمیر کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کشمیری ایک بار پھرتاریخی موڑ پرکھڑے ہیں۔ 1987ءکی انتخابی دھاندلیوں کے بعد شاید یہ پہلا واقعہ تھا کہ جس نے کشمیرکی عمومی نفسیات کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔
اس وقت کہ جب محبوبہ مفتی نے وزارت سے استعفیٰ دیدیا ، بھارت کے لیے کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنا آسان لگ رہا ہے۔ وادی میں چاروں جانب پولیس، فوج اور نیم فوجی دستوں کی موجودگی میں خود کو غلام تصور کرنے والے لوگ بیدار ہو کر حریت کی تحریک کو اپنے لہو سے سینچ رہے ہیں۔ کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ لوگوں کو مسلسل قتل کیا جارہا ہے۔گھر جلائے جا رہے ہیں۔ انسانیت تڑپ رہی ہے اور امن کا راگ الاپنے والا دنیا بھر کا ہر دم بیدار میڈیا بے حسی و بے بسی کی علامت بنا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا سے تو شکوہ بجا مگر پاکستان کے چند اخبارات اور رسائل کے سوا کوئی بھی اس آواز کا ہم نوا بننے کو تیار نہیں۔
کشمیریوں کی خفیہ اجتماعی قبریں بھارت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں۔ شہری آبادیوں پر بدترین تشدد دنیا بھر میں اس کے لیے باعث رسوائی ہے۔ حریت رہنماو ¿ں کو قید میں ڈالنا اور تشدد کرنا اس کے لیے بدنامی کا سبب بن چکا ہے۔ افسپا جیسے کالے قوانین اس کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ بھارت کی لاکھ کوششیں سہی لیکن آخر کب تک کشمیریوں کو ان کے بنیادی حق ،حق خودارادیت سے محروم رکھ سکے گا؟اقبال نے کہا تھا کہ
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
سوچنے کی بات یہ ہے ایک نوجوان جس نے تحریک آزادی کے ایک شعلہ نوا مقرر اور سرگرم کارکن کے طور پر اتنی شہرت حاصل کر لی کہ انڈین گورنمنٹ نے اس کے سرکی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر دی کو دبانے میں بھارت ناکام رہا جب اتنے سارے وانی ان کے سامنے ہیں تو بھارت کو یقینا اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔ وانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں نوجوان اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ ریاست میں بھارتی سیکورٹی فورسز (آرمی، نیم مسلح افواج وغیرہ) برہان وانی کے حملوں سے عاجز آگئیں اور مرکز کو بارڈر پولیس کی مزید کمپنیاں/ بٹالینیں بھیجنے کی درخواست کی تاکہ اس تحریک کو کچلا جا سکے۔
وہ سوشل میڈیا کے ذریعے آزادی کا پرچار کرتا تھا،یہ آزادی ا س کا بنیادی حق تھا، اس حق کو امریکا نے بھی استعمال کیاا ور برطانوی استعمار کو مار بھگایا، اس حق کو نیلسن منڈیلا نے بھی استعمال کیا اور سفید فام استعمار اور استبداد سے نجات پائی، اس حق کو یاسر عرفات نے بھی استعما ل کیاا ور وہ اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا رہا۔ الجزائرا ور انگولا نے بھی آزادی کی تحریک چلائی۔اس لحاظ سے بھارت کسی صورت برہان وانی کو دہشت گرد نہیں کہہ سکتا۔
برہان وانی کی تصویروں پر سوشل میڈیا پر فیس بک وغیرہ پر اپ لوڈ کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ بہت سے نوجوان بھی اس کی فوٹو اپنی پروفائل فوٹو بنانے لگے کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے فیس بک نے اکاو ¿نٹ ڈیلیٹ کر رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی برہان وانی کا یوم شہادت قریب آنے پر ٹویٹر انتظامیہ نے کشمیریوں کے حق میں مہم چلانے والے سینکڑوں اکاو ¿نٹس ڈیلیٹ کیے گئے۔ ٹویٹر انتظامیہ بھی نہتے کشمیریوں کی قتل و غارت گری اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والی بھارتی فوج اور بی جے پی حکومت کے خلاف آواز بلند کرے لیکن ایسا کرنے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے اکاو ¿نٹس ہی ختم کر دیے گئے ہیں۔
کشمیر میں آزادی رائے پر بالکل پابندی لگائی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ بالکل بند کر دیا گیا ہے ۔برہان وانی کی شہادت پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھارتی فورسز نے جو کارروائی کی وہ غیر قانونی ہے اور اس میں ضرورت سے کہیں زیادہ فورس استعمال کی جارہی ہے۔لیکن بھارت کی یہ درندگی جموں اور کشمیر کے دلیر اور بہادر لوگوں کو اس جدوجہد سے خوفزدہ نہیں کر سکتی جو وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی آزادی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد بھی مودی سرکاربوکھلاہٹ کا شکار ہے۔
مگر یہاں افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف کشمیری نوجوان پاکستان کے لیے کٹ مر رہے ہیں تو دوسری جانب کشمیر پاکستانی حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، حکومت اگر کشمیر کے حوالے سے کوئی سیشن رکھتی ہے تواپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوتی اور انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک اتنی ناکام نہیں ہوئی جتنی برہان وانی کی شہادت کے بعد ناکام نظر آئی۔
اگر پاکستان کے الیکشن کو دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جس کے منشور میں کشمیر شامل ہو۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت نے یہ منشور تو رکھا مگر افسوس کہ اس کو ہی رجسٹریشن نہیں ملی۔ اب جب بھی ان کے امید وار آزاد حیثیت سے کھڑے ہیں تو یقینا پاکستانیوں کا حق بنتا ہے مودی کی انتہا پسند جماعت کی طرح محب وطن پاکستانی جماعت کے امیدواروں کو ایوان میں لایا جائے۔ تاکہ کوئی تو ہو جو سرحدوں کی حقیقی معنوں میں دفاع کرنے والی جماعت ہو۔ ایک بات بھارت کو یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت کے لیے اب کشمیر میں کوئی حصہ نہیں رہا، اب بھارت کی اپنی بقا بھی خطرے میں پڑنے لگی ہے اب بھارت بس اپنی خیر منائے۔
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند
سوچنے کی بات یہ ہے ایک نوجوان جس نے تحریک آزادی کے ایک شعلہ نوا مقرر اور سرگرم کارکن کے طور پر اتنی شہرت حاصل کر لی کہ انڈین گورنمنٹ نے اس کے سرکی قیمت 10 لاکھ روپے مقرر کر دی کو دبانے میں بھارت ناکام رہا جب اتنے سارے وانی ان کے سامنے ہیں تو بھارت کو یقینا اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔ وانی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں نوجوان اس تحریک میں شامل ہو گئے۔ ریاست میں بھارتی سیکورٹی فورسز (آرمی، نیم مسلح افواج وغیرہ) برہان وانی کے حملوں سے عاجز آگئیں اور مرکز کو بارڈر پولیس کی مزید کمپنیاں/ بٹالینیں بھیجنے کی درخواست کی تاکہ اس تحریک کو کچلا جا سکے۔
وہ سوشل میڈیا کے ذریعے آزادی کا پرچار کرتا تھا،یہ آزادی ا س کا بنیادی حق تھا، اس حق کو امریکا نے بھی استعمال کیاا ور برطانوی استعمار کو مار بھگایا، اس حق کو نیلسن منڈیلا نے بھی استعمال کیا اور سفید فام استعمار اور استبداد سے نجات پائی، اس حق کو یاسر عرفات نے بھی استعما ل کیاا ور وہ اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا رہا۔ الجزائرا ور انگولا نے بھی آزادی کی تحریک چلائی۔اس لحاظ سے بھارت کسی صورت برہان وانی کو دہشت گرد نہیں کہہ سکتا۔
برہان وانی کی تصویروں پر سوشل میڈیا پر فیس بک وغیرہ پر اپ لوڈ کرنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ بہت سے نوجوان بھی اس کی فوٹو اپنی پروفائل فوٹو بنانے لگے کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانے کے لیے فیس بک نے اکاو ¿نٹ ڈیلیٹ کر رہا ہے۔ گزشتہ برس بھی برہان وانی کا یوم شہادت قریب آنے پر ٹویٹر انتظامیہ نے کشمیریوں کے حق میں مہم چلانے والے سینکڑوں اکاو ¿نٹس ڈیلیٹ کیے گئے۔ ٹویٹر انتظامیہ بھی نہتے کشمیریوں کی قتل و غارت گری اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والی بھارتی فوج اور بی جے پی حکومت کے خلاف آواز بلند کرے لیکن ایسا کرنے کی بجائے مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے اکاو ¿نٹس ہی ختم کر دیے گئے ہیں۔
کشمیر میں آزادی رائے پر بالکل پابندی لگائی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ بالکل بند کر دیا گیا ہے ۔برہان وانی کی شہادت پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھارتی فورسز نے جو کارروائی کی وہ غیر قانونی ہے اور اس میں ضرورت سے کہیں زیادہ فورس استعمال کی جارہی ہے۔لیکن بھارت کی یہ درندگی جموں اور کشمیر کے دلیر اور بہادر لوگوں کو اس جدوجہد سے خوفزدہ نہیں کر سکتی جو وہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اپنی آزادی کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔برہان وانی شہید کی شہادت کے بعد بھی مودی سرکاربوکھلاہٹ کا شکار ہے۔
مگر یہاں افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک طرف کشمیری نوجوان پاکستان کے لیے کٹ مر رہے ہیں تو دوسری جانب کشمیر پاکستانی حکمرانوں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، حکومت اگر کشمیر کے حوالے سے کوئی سیشن رکھتی ہے تواپوزیشن اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہوتی اور انڈیا دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف خطرناک پروپیگنڈا کرتا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آج تک اتنی ناکام نہیں ہوئی جتنی برہان وانی کی شہادت کے بعد ناکام نظر آئی۔
اگر پاکستان کے الیکشن کو دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی جماعت ایسی ہو جس کے منشور میں کشمیر شامل ہو۔ ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک جماعت نے یہ منشور تو رکھا مگر افسوس کہ اس کو ہی رجسٹریشن نہیں ملی۔ اب جب بھی ان کے امید وار آزاد حیثیت سے کھڑے ہیں تو یقینا پاکستانیوں کا حق بنتا ہے مودی کی انتہا پسند جماعت کی طرح محب وطن پاکستانی جماعت کے امیدواروں کو ایوان میں لایا جائے۔ تاکہ کوئی تو ہو جو سرحدوں کی حقیقی معنوں میں دفاع کرنے والی جماعت ہو۔ ایک بات بھارت کو یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت کے لیے اب کشمیر میں کوئی حصہ نہیں رہا، اب بھارت کی اپنی بقا بھی خطرے میں پڑنے لگی ہے اب بھارت بس اپنی خیر منائے۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]