*جرأت ہونمود کی توفضا تنگ نہیں ہے*

امیرسندھی

دنیا میں لاکھوں انسان آئے اور مٹی کے نیچے دب گئے، کروڑوں نے جنم لیا مگر وقت کی تیز دھار نے انہیں کاٹ کر رکھ دیا، اربوں پیدا ہوئے مگر خاک میں مل گئے، نہ کوئی مقصد و مشن، نہ اعلی نظریات،نہ ارفع سوچ، بس کمایا، کھایا، سویا اور مرگئے۔ لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں جو اپنے نمایاں کارناموں، اچھوتے کرداروں، بامقصد طرز حیات کی بنا پر آج بھی بدر منیر کی طرح ضوفشانی اور آفتابِ صبح کی طرح نور و روشنی بکھیر رہی ہیں۔ کہنے کو تو یہ سب انسان تھے مگر ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے، کہاں محنت، مشقت، جہد اور لگن میں گندھا ہوا مردآہن اور کہاں سستی،غفلت اور بیکاری میں پلا بڑھامٹی کااک ڈھیر۔
اس حقیقت سے کسی کو انکارنہیں کہ رات کی بھیانک تاریکی میں سے ہی صبح پرنور نمودار ہوتی ہے، غم واندوہ کے پہاڑوں کے بیچ ہی سے خوشی، مسرت اور شادمانی کی راہیں نکلتی ہیں۔ تکلیف، دکھ، مصیبت. کے بعد ہی راحت سکون آرام میسر ہوتاہے۔ رب فرماتا ہے
’’ ان مع العسر یسرا‘‘، فتح کے لطف، کامیابی کے مزے کو تکلیف ہی دوبالا کرتی ہے۔
کامرانی کے راستے میں آلام، مصائب، غم وکرب کے طوفان درپیش ہوتے ہیں۔ درد وغم، بے چینی ومایوسی بعض مرتبہ اس طور پر گھیرلیتی ہے کہ تمام راہیں مسدود اور تمام امیدیں الٹتی دکھائی دیتی ہیں، یہیں پر کامیاب و ناکام انسان کی راہیں الگ ہوجاتی ہیں۔ بزدل ڈر کر گھبراکر راہِ فرار اختیار کرکے نا مراد ہوجاتاہے۔ جبکہ مردِ خدا ان نامساعد حالات میں ہنس کر ابھرتا ہے، وہ موت سے آنکھیں لڑاتا، غم، مصائب و آلام سے پنجہ آزمائی کرکے خود اپنی دنیا آپ پیدا کرتاہے، جہد مسلسل، ہمت، جرأت اور بہادری کی بنا پر وہ سب کر گزرتاہے جو نکمے انسان کے وہم و گمان تک میں نہیں ہوتا۔
سوباتوں کی ایک بات، ہزار سوالوں کا ایک ہی جواب، لاکھوں نسخوں کا ایک ہی نچوڑ،”جہد مسلسل”ہے
یہ وہ چیز ہے جو انسان کو فرش سے اٹھاکر ثریا تک لے جاتی ہے۔ آپ کے پاس کچھ نہ ہو، نہ صاحب زادگی، نہ شہزادگی، نہ خاندانی رسوخ، نہ مال ودولت مگر آپ محنت پسند طبیعت کے مالک ہیں تو واللہ سب کچھ حاصل ہے۔ اس کے بالمقابل آپ علامہ کی اولاد ہیں، یا پیر سائیں کے شہزادے، کسی صاحب ثروت کے جگر پارے ہیں کہ کسی کرپٹ سیاست داں کے لاڈلے، یا کسی صاحب سطوت کے راج دلارے لیکن سستی نکمے پن کے جراثیم سے آلودہ ہیں تو سن لیں، جان لیں، اچھی طرح سے ذہن کی سلوٹوں میں بٹھالیں کہ آپ ناکام ہیں، نامراد ہیں۔
کہتے ہیں کہ غریب پیدا ہونے میں کوئی بری بات نہیں، مگر مکمل زندگی بسر کرکے اسی حال پر مرنا بہت ہی براہے۔ غلامی، کم مائیگی، اور پستی میں آنکھیں کھولنا کچھ برا نہیں، مگر اسی پر قانع رہنا، حالات کے رحم وکرم پر بیدست وپا پڑے رہنا، تبدیلی، خوشگواری، رفعت اور عروج کے لیے ہاتھ پیر نہ مارنا انسانیت نہیں، بلکہ عار، شرمندگی، اورذلت ہے۔
والٹیئر کا قول ہے کہ میں نے اکثر بڑے لوگوں کو جھونپڑوں سے نکلتے دیکھاہے، تاریخ گواہ ہے اور ماضی شاہد ہے کہ کم رتبے کے لوگوں نے محنت، جہد مسلسل، جرأت اور غیرت سے وہ سب کچھ پایا جسے دیکھ کر آج بھی انسانیت مبہوت ہے۔ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ عنہ حبشی النسل کالے کلوٹے غلام تھے، مگر حضرت عمر جیسا قریشی، نڈر فاتح انہیں سیدنا سے مخاطب فرمایاکرتے تھے۔
“جرأت ہونمود کی توفضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا ملکِ خدا تنگ نہیں ہے”
فاتح اندلس طارق بن زیاد ایک غلام تھے، عظیم جرنیل شیر شاہ سوری ایک سپاہی تھے، افغان صدر نادرشاہ ایک چرواہے تھے، سلطان ناصرالدین ٹوپیاں بیچا کرتے تھے اور ہندوستان کے حالیہ وزیراعظم موذی خوانچہ فروش کے بیٹے ہیں اور خود نے کئی سالوں تک چائے بنائی اور کیتلی گھمائی ہے۔
آپ بھی گر دنیا میں کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں، اونچی اڑان بھرنے کے متمنی ہیں، زندگی کو بامقصد بنانے کے آرزو مند ہیں، تو آج ہی سے محنت کو اوڑھنا اور مشقت کو بچھونا بنالیں، اپنے قیمتی سرمایہ وقت کو کام میں لائیں، اور دنیا کو منواکے چھوڑیں، اس طرح دین وایمان کی خدمت کر جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *