(تحریر۔محسن علی ساجد)
گزشتہ روزبار ش نے جل تھل کردیا،عوام کے چہرے کھلکھلا اُٹھے،کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو پرندوں

کی چہچاہٹ ہوائوں کی مستیوں نے اپنے سحر میں گرفتار کرلیا۔بچپن کا وہ زمانہ یاد آگیا جب کبھی بارش ہوتی تھی تو ہم سارے بچے لڑکے بالے کاغذ کی کشتیاں بنا کر پانی میں چھوڑتے تھے بہت سادہ زمانہ تھا ،اِسی موسم کی جب بھی بارش ہوتی اماں جی چاش کا حلوہ بناتیں اور ہم محلے کے سبھی بچے اکٹھے بیٹھ کر کھاتے لیکن آج محلہ تو دور ہمسائیہ کا نہیں پتہ کہ کون ہے کیا کررہا ہے کس حال میں جی رہا ہے ،ہمیں تو دُکھ اِس بات کا ہوتا ہے کہ آج کا نوجوان بجائے بڑوں کے پاس بیٹھنے کے کانوں میں ہیڈ فون لگائے اپنی مستیوں میں گُم ہوتا ہے نہ نماز نہ روزہ۔خیر بات مینا کی ہورہی تھی تو ایک شعر نذرقارئین کرتے ہیں کہ
اداس رہتا ہے محلے میں بارش کا پانی آج کل
سنا ہے کاغذ کی کشتی بنانیوالے بڑے ہوگئے
خیر موسم کی خوشگواری اور عوام کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر سوچا کچھ لکھنے بیٹھوں ،ذہن میں سوال اُبھرا کہ آج تو مینا برسا لیکن جب مینا نہ برسے اور پانی بھی نہ ملا تو کیا حال ہوگا؟یہ سوچنا ہی تھا ساتھ ہی رب کائنات کے حضور دُعا کی کہ اے میرے مالک وطن عزیز سے پانی کے بحران کا خاتمہ فرما،کیونکہ جس طرح پاکستان کا روایتی دُشمن بھارت پاکستانی دریائوں پر دِن بدن نئے ڈیم بنا رہا ہے اُس سے حیات زندگی کو بھی خطرات درپیش ہوسکتے ہیں ۔دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا حکم خوش آئند ہے، پانی کا بحران دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے اگر بروقت ڈیم تعمیر نہ ہوئے تو 2025 کے بعد پانی کی شدید قلت ہو جائے گی زمین بنجر اور فصلیں برباد ہو جائیں گی اور معیشت تباہ ہو جائے گی۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے دستیاب ذرائع استعمال کرتے ہوئے جلد از جلد ڈیموںکی تعمیر کریں نئے ڈیموں کی تعمیر سے انتہائی سستی بجلی مل سکتی ہے۔اس وقت پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں سب سے
بڑا مسئلہ پانی کا ہی ہے اسی لیے تو ہندو بنیادِن بدن پاکستان سے پانی کے ذخائر خشک کرنے کیلئے سازشیں کررہا ہے ،انتخابات قریب ہیں وطن عزیز میں جو بھی حکومت برسراقتدار آئے اُس پر فرض ہوگا کہ تمام مسائل حل کرنے سے پہلے سب سے پہلے پانی کے مسئلہ پر توجہ دے اس حوالے سے موجودہ نگران حکومت نے بھی دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گزشتہ روز فنانس ڈویژن کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق اس فنڈ کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان، نیشنل بینک آف پاکستان اور دیگر شیڈول بینکوں کی برانچوں میں رقوم جمع ہو سکیں گی۔ اس فنڈ میں مقامی اور بین الاقوامی ڈونرز سے عطیات کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے رقوم کی وصولی بھی کی جا سکے گی۔ بیرون ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں رقوم وصول ہوں گی جن کی ترسیل سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کی جائے گی۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ اس فنڈ کے تحت وصول ہونے والی رقوم وفاقی حکومت کے پبلک اکائونٹ میں جمع ہونی چاہئیں۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق فنڈ کے اکائونٹس کو اکائونٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو اسلام آباد مینٹین کرے گا جبکہ اس کا انتظام سپریم کورٹ کے اگلے احکامات تک رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس رہے گا۔دوسری جانب نگران حکومت عام انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے ،تمام ادارے بھی اپنے اپنے کام احسن طریقہ سے انجام دے رہے ہیں ،سیاسی پہلوان بھی انتخابات کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔ دوسری جانب عوام بھی اب بھرپور شعور رکھتی ہے اور اب تو ووٹ اُسی کو ملے گا جس نے کچھ کیا ہوگا اور خالی خولی نعرے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آنیوالا ۔ووٹ ڈالنا بھی ایک قومی ذمہ داری ہے یقینا عوام عام انتخابات میں بھر پور حصہ لیگی اور ووٹ ڈالنے کی شرح زیادہ ہونے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ عوام اپنی مرضی سے اچھے حقیقی نمائندوں کو ایوانوں میں بھیج کر جمہوری عمل کو جاری رہنے میں اپنا کردار ادا کریں گے جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر بھی پاکستان کی جمہوریت پسندانہ فکر و سوچ کو تقویت ملے گی ۔عام انتخابات کے موقع پر میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے پروگراموں میں جید علماء کرام کے ذریعے ووٹ کی شرعی حیثیت کو اجاگر کرے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ اسلامی اصولوں کے تحت اچھے ، باکردار ، اور باصلاحیت نمائندوں کے چناؤ کیلئے کن کن ضروری باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
٭٭٭٭٭
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]