والدین کے نام ۔۔۔ بہت ضروری تحریر ۔۔۔۔۔
ایک ننھے بچے کی خواہش ۔۔۔۔۔۔مگر کیوں ۔۔۔۔۔ تربیت اولاد کے سلسلہ میں ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی ایک منفرد تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرائمری سکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے؟
سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے۔
اس کے شوہر نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی یہ ایک بچے کا مضمون پڑھ کر رو دی لیں آپ بھی پڑھ لیں ۔اب ذرا دل تھام کر پڑھیے کہ اس بچے نے ایسا کیالکھا تھا “اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے ٹیلی ویژن بنادے میں ٹی وی کی جگہ لینا چاہتا ہوں، ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے گھر میں موجود ٹی وی جی رہا ہے میں ٹی وی کی جگہ لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹی وی کی طرح بول رہا ہونگا تو سب میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے ہونگے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا اور بغیر رکے سب مجھے ہی دیکھتے سنتے رہیں گے کوئی مجھ سے سوال جواب نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا۔ میں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے ٹی وی کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے جیسے جب ٹی وی خراب ہوجائے اس کا جتنا خیال کیا جاتا ہے اتنا ہی میرا خیال رکھا جائے گا میری زرا سی خرابی سب کو پریشان کردے گی۔
میں اپنے ابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے میرے ابو ٹی وی کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے ہی ٹی وی کی طرف متوجہ رہتے ہیں چاہے ابو کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں جیسے وہ ٹی وی کی طرف متوجہ رہتی ہیں چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں۔ چنانچہ بجائے مجھے نظر انداز کرنے کے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔
اور میرے بھائی بہن بھی جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میرے اردگرد پھریں گے میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے اور آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں تو میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا جس طرح ٹی وی رکھتا ہے۔اے خدا بس تو مجھے ٹی وی بنادے
ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا “ اے خدایا کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔
ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون “ہمارے اپنے بچے“ کا لکھا ہوا ہے.
یہ کہانی تو یہاں ختم ہو گئی لیکن یہ صرف کہانی نہیں تھی یہ ہم سب کا معاملہ ہے. ہم اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بچوں سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں. اب تو ٹی وی کے بعد موبائل اور کمپیوٹر پر ہمارا زیادہ وقت گزرتا ہے. کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ایک منٹ کے لیے رک جائیں اور اپنی روٹین کو دیکھیں کہ ہم کس کس کو مناسب وقت نہیں دے پا رہے اور اپنی روٹین کو درست کریں.مشینوں سے نکل کر انسانوں میں وقت گزاریں.مجھے اکثر والدین کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہم نے اس کی ہر ضد پوری کی ہے لیکن یہ بات ہی نہیں سنتا۔ تو میں ایک ہی وجہ بتاتا ہوں بچے کی ضد پوری کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ بچہ آپ کا باپ ہےاور دوسرا یہ کہ آپ نے اپنی
جان چھڑا لی۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے ایک دفعہ ایک بچے نے کہا والدین کون سا احسان کرتے ہیں پیدا کیا ہے تو چیزیں دینا بھی تو لازم ہے وہ ہی دیں گے اس بچے کے انداز نے حیران کردیا جب میں نے تحقیق کی تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوٸی کے اس کے ماں باپ نے اسے ہر چیز دی سواۓ وقت کے اور یہ بات اس کے لاشعور میں بیٹھ گٸی اس طرح وہ باغی ہو گیا۔بہت سی باتیں بچوں کے دل اور ذہن میں پختہ ہو جاتی ہیں یہی نہیں ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کا ایک جملہ یاد رکھیں جن بچوں کی تربیت والدین نہیں کرتے ان کی تربیت ٹی وی کرتا ہے اور اس طرح ہماری نٸی نسل ادب و اداب سے خالی کیوں ہے کیا کبھی آپ نے سوچا اس پوسٹ کے بارے میں کہ ایک بچہ لکھتا ہے جونون لیگ کاحامی ہے وہ حرامی ہے اور شام کو اس کے والد کی وال پہ پوسٹ ملتی ہے نواز شریف نے۔جتنے کام کیااتنے کسی نے نہیں کیے ووٹ اس کا پکا ۔اسی طرح بچوں میں بڑوں چھوٹوں کی تمیز نہیں ایجوکیشن سسٹمز نے فرسٹ سکینڈ تھرڈ کا ایسا فوبیا ڈال دیا کہ جیتنا ہی زندگی کامقصد بنا دیا بچوں کو کارٹون کے سب چینلز کے نام پتہ ہیں لیکن آدم علیہ السلام موسی علیہ السلام یوسف علیہ السلام عیسی علیہ السلام اور کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنھم ابوبکر ۔عمر ۔عثمان ۔علی رضوان اللہ علھیم اجمعین نہیں پتہ بچے کو الٹی سیدھی انگلش کی گنتی آتی ہے مگر سلام کرنا ۔آپ کہنا ۔ماں باپ کے تکیہ کی طرف نا بیٹھنا ۔داٸیں ہاتھ سے پانی راہ چلتے نا کھاناپینا یہ نہیں معلوم۔کیوں کیوں کیوں؟ ۔ایک دفعہ سکول میں ایک بچے کو آیا جی یعنی کام والی آنٹی نے کہا بیٹا داٸیں ہاتھ سے پانی پیو تو بچے نے کہا تو میری ماں لگتی ہے نوکرانی ہونوکرانی رہو ۔اس واقعے سے میں رو دیا یقینا دو باتیں ثابت ہوٸی ایک تو بگڑی اولاد دوسرا اس کی ماں جی نے اسے بتایا نہیں ۔ایک بچے نے صاف کہا سر امی کے بال اور شکل سنورے تو ہی میرا ہوم ورک مکمل ہو اولاد کی بغاوت کی بڑی وجہ وقت نا دینا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی یہ تحریر کہانی سمجھ کر ڈیلیٹ مت کر دیجیے گا بلکہ اس درخواست پر عمل کریں پلیز اپنی اولاد کووقت دیں سنھبالیں ۔ضد پوری کرنے کا احسان مت کریں آج کا بچہ ذہنی اعتبار سے زیادہ تیز فکروالا ہے میڈیا اور انگلش سسٹمز کی گود میں اگر آپ نے اولاد کو پھینکا تو کل تو اور ظالم دور آنے والا ہے وہ آپ کو اولڈ ہوم کی گود میں پھینک دیں گے سب پیسہ دولت کماٸی کسی کام نہیں آۓگی کہیں سے یہ جملے سناٸی دیں گے بابا جی ڈسٹرب ناکرو ۔جاہل ہی ہیں آپ کو کیا پتہ ماڈرن دور کا ۔آپ نے جی لیا۔ اور آپ کا کھانسا بھی نا پسند کیا جاۓ گا ۔اس تحریر میں ڈاکٹر محمد اعظم رضا نے آپ کے لیے وہ بھی لکھ دیا جو اولڈ ہومز کے بوڑھوں نے بتایا اور میں رو دیا ۔وقت دیں پیار دیں سمجھاٸیں غلطی کااحساس دلاٸیں گناہ پر سزا دیں اور پردہ مت ڈالیں اور اس غلط فہمی سے نکلیں بچہ ہے کل ٹھیک ہو جاۓ گا میں نے کالجز کے آفس میں والدین کو پاوں میں گرتے دیکھا ہے کہ آپ بدلیں اولاد کو۔۔پلیز وہ یہ رتا ہے یہ کرتا ہے ایک ہی بچہ ہے آپ سنھبالیں مگر میرے لیے کونسلنگ مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ کالج میں آنے والے اکثر بچے پہلےوالدین کے باغی پھر کالج سسٹم کے پھر پاکستان اور اسلام کے باغی ہوتے ہیں وجہ آپ جان چکے ہیں ۔تربیت کریں وقت دیں اچھا انسان بننے اور بنانے کا عمل گھر سے شروع ہوتا ہے.
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]