تحریر… اطہرعلی شاہ
خدا جانےیہ بات ہمارے ذہنوں میں کہاں سے بیٹھ گئی ہے ۔ اور ہم نےیہ سمجھ لیا ہے کہ دین بس نماز ، روزہ ، زکوة اور حج کا نام ہے۔ نماز پڑھ لی ، روز ہ رکھ لیا ، زکوة اور حج کا اہتمام کر لیا ، بس ہم مسلمان ہوگئے ۔ اب مزید ہم سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں ہے ۔ چنانچہ جب ہم بازار جاتے ہیں تو وہاں جھوٹ ، فریب اور دھوکے سے مال حاصل ہورہا ہے ۔ حرام وحلال ایک ہو رہا ہے ۔ اس کی کوئی فکر نہیں ، زبان کا بھروسہ نہیں ، امانت میں خیانت ہے ، وعدہ کا پاس نہیں ۔ لہٰذا اسلام کا یہ تصور پیش کرنا کہ اسلام صرف روزہ ، نماز اور جج کانام ہے یہ بڑا خطرناک اور غلط تصور ہے ۔
لہذا ایسا شخص چاہے نماز بھی پڑھ رہا ہو ، روزہ بھی رکھ رہا ہو اور زکوة بھی بروقت ادا کر رہا ہو ، لیکن وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ۔ ایسا شخص سارے کام منافقوں اور کافروں جیسا کررہا ہے.
اور فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں اول جھوٹ بولنا ، دوم وعدہ خلافی کرنا اور سوم خیانت کرنا ۔
جھوٹ بولنا اتنا سنگین جرم ہے اور ایسا حرام ہے کہ کوئ ملت ، کوئ قوم ایسی نہیں گزری جس میں جھوٹ بولنا حرام نہ ہو حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے تھے ۔
ایک دفعہ جب آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم کے بادشاہ کی طرف اسلام کی دعوت کے لئے خط بھیجا تو خط پڑھنے کے بعد اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ ہمارے ملک میں اگر ایسے لوگ موجود ہوں جو ان سے واقف ہوں تو ان کو میرے پاس بھیج دو ، تاکہ میں اس کے حالات معلوم کروں کہ وہ کیسا ہے ؟ اتفاق سے اس وقت حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوۓ تھے ایک قافلہ لے کر وہاں گئے ہوۓ تھے, لوگ انہیں بادشاہ کے پاس لے آۓ ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ بادشاہ کے پاس پہنچے تو بادشاہ نے ان سے سوالات کرنا شروع کیے ۔ پہلا سوال بادشاہ کا یہ تھا کہ یہ بتاؤ کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے ؟ وہ کیسا خاندان ہے ؟ اس کی شہرت کیسی ہے ؟
انہوں نے جواب دیا کہ ان کا خاندان تو اعلی درجے کا ہے ؟ اعلی درجے کے خاندان میں وہ پیدا ہوۓ اور سارا عرب اس کے خاندان کی شرافت کا قائل ہے ۔ اس بادشاہ نے تصدیق کرتے ہوۓ کہا: بالکل ٹھیک ہے ۔ جو اللہ پاک کے نبی ہوتے ہیں وہ اعلی خاندان سے ہوتے ہیں ۔ پھر دوسرا سوال یہ کیا کہ ان کے پیروی کرنے والے معمولی درجے کے لوگ ہیں یا بڑ ے بڑے رؤساء ہیں ۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے متبعین ابتداءً ضعیف اور کمزور قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اور کئی سوالات کیے جو پیغمبرانہ شان سے متعلق تھے ۔ لیکن سب کے سب جوابات ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سچ اور صحیح دیے ۔اور اسلام لانے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی میں اس فکر میں تھا کہ ایسا جملہ کہہ دوں جس سے آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تاثر قائم ہو ۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بول سکتا تھا ۔
بہرحال جاہلیت کے لوگ جو ابھی اسلام نہیں لاۓ تھے وہ بھی جھوٹ بولنے کو گوارا نہیں کرتے تھے ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَول اِلَّا لَدَیہِ رَقِیب عَتِید.
یعنی زبان سے جو لفظ نکل رہا ہے ,وہ تمہارے نامہ اعمال میں ریکارڈ ہو رہا ہے ۔
ہمارے پیارے آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک خاتون ایک بچے کو بلا کر گود میں لینا چاہتی ہے لیکن وہ بچہ قریب نہیں آ رہا تھا ۔ ان خاتون نے بچے کو بہلانے کے لئے کہا کہ بیٹا یہاں آؤ ، ہم تمہیں چیز دیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وہ بات سن لی اور آپ نے اس خاتون سے پوچھا کہ تمہارا کوئی دینے کا ارادہ ہے یا ویسے ہی اس کو بلانے اور بہلانے کے لئے کہہ رہی ہو اس خاتون نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میراکھجور دینے کا ارادہ ہے کہ جب وہ میرے پاس آئے گا تو میں اس کو کھجوردوں گی.
پیغمبر پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارا کجھور دینے کا ارادہ نہ ہوتا بلکہ محض بہلانے کے لئے کہتی کہ میں تمہیں کجھور دوں گی تو تمہارے اعمال نامہ میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ۔ اس حدیث پاک میں آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امت کو یہ سبق دیا کہ بچوں کےساتھ بھی جھوٹ نہ بولو اور ان کے ساتھ بھی وعدہ خلافی نہ کرو ورنہ شروع ہی سے جھوٹ کی برائی اس کے دل سےنکل جائے گی ۔۔۔
اسی طرح ہم لوگ محض مذاق اور تفریح کے لئے بھی زبان سے جھوٹی باتیں نکال دیتے ہیں ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں بھی جھوٹی باتیں زبان سے نکالنے سے منع فرمایا ہے,
کہ اس شخص کے لئے سخت درد ناک عذاب ہوگا جو محض لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ۔
محترم قارئین! آپ اس مبارک احادیث سے اندازہ لگائیے کہ بچوں کے ساتھ جھوٹ بولنے سے بھی ہمارے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو منع فرمایا ہے ۔ مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے ۔ اور جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں شامل فرمایا اور بھی متعدد احادیث میں جھوٹ کی مذمت اور جھوٹ بولنے والے کے بارے میں وعیدیں آئی ہیں ۔
علاوہ ازیں اہم امور جیسے معاملات ، معاشرات اور سیاسیات وغیرہ میں تو جھوٹ بولنے کی کسی طرح بھی گنجائش نہیں نکل سکتی ۔
لہذا بحیثت مسلمان ہم سب کے لئے ضروری ہیں کہ ہم اس عظیم جرم اور گناہ سے توبہ کرکے آئیندہ ہر حال میں سچ اور سچ بولنے کو ترجیح دیں خواہ کتنا بھی دنیاوی نقصان کا سامنا کوئی نہ ہو ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]