ہم اور ہمارےاپنے ۔ ووٹ سے پہلے اپنوں کو عزت دو ۔
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
ارسطو کے پاس ایک بادشاہ آیا اس وقت ارسطو کسی کام میں مصروف تھا بادشاہ نے ارسطو کو آواز دی تو ارسطو نے کہا کچھ کلام کرو تا کہ مجھے تمھاری گفتگو سے اندازا ہو کہ تم۔بادشاہ ہو کہ نہیں ۔ دانا کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو ۔اسی طرح یہ جملہ بھی مشہور ہے کہ انسان کی زبان اس کی اصل پہچان ہے ۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ کتنے ہی لوگوں سے اس لیے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ زبان کے برے ہیں ۔ بلکہ بعض دفعہ تو صاف صاف سنا ہے یار اس کہ منہ نہیں لگنا اس کی زبان بہت گندی ہے ۔ یاد رکھیں لوگ ایک دوسرے کووہ ہی دیتے ہیں جو ان کے پاس ہوتا ہے ۔ ہمارا دماغ ایک ٹوکری کی مانند ہے ہم اس ٹوکری میں اگر برے لوگوں کی بری باتیں جمع کریں گے تو جب منہ کھلے گا تو نفرت گالی گلوچ کینہ حسد کی بو ہی آۓ گی اور اگر ہم اس میں اچھی باتیں جمع کریں گے اچھے خیالات جمع کریں گے تو جب ہم گفتگو کریں گے تو اچھی باتیں ہی نکلیں گی محبت عام ہوگی لوگ کہیں گے یار اس بندے کو بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے ۔ رہی بات یہ کہ ہمارے ہاں بڑا بول کب بولا جاتا ہے یا اپنے معیار سے کب گرا جاتا ہے تو اس کی نہایت سادہ سی مثال ایسے سمجھ لیں ۔
ایک دفعہ ایک حکیم کے پاس ایک بادشاہ آیا اور اس نے کہا ۔حکیم صاحب مجھے دنیا کی کوٸی ایسی جگہ بتاو جہاں رہ کر میں سلطنت کا بہترین انتظام بھی چلا سکوں اور میری صحت اور زندگی کے تمام معاملات اچھے رہیں ۔ حکیم نے ایک ہی جملہ کہا “اپنی اوقات میں رہا کرو ” …. جی ہاں انسان اگر اپنی اوقات میں رہے تو نا تکبر میں مبتلا ہو نا ہی حسد کا شکار ہو ۔ انسان کی اوقات یہ ہی ہے کہ اسے ہرلمحہ یاد ہو کہ وہ مٹی ہے اور مٹی ہو جانا ہے ۔ جس خدا نے اسے تخلیق کیا اسی کے پاس لوٹ جانا ہے خالی ہاتھ آیا ہے خالی ہاتھ جانا ہے بس نا مال جمع شدہ کسی کام کا نا جھوٹی شہرت ۔ لہذا اسے عجز و انکساری سے رہنا ہے اللہ کی راہ میں مال دینا بھی ہے اور عطا پر شکر بجا لانا بھی ہے ۔علم عمل کے لیے ہے نا کہ علم براۓ بحث و مباحثہ ۔ دوسروں کونفع دینا ہے خیر کا کام کرنا ہے اور خیر کو عام کرنا ہے ۔ گدھےپہ کتابیں لادی ہونا اس کے عالم ہونے کی دلیل نہیں ۔ انسان کی پہچان اس کی گفتگو سے ہوتی ہے ۔ عزت دیں لفظوں سے اور جگہ دیں دل میں ۔ یقینا عزت ایک مہنگا تحفہ ہے اس کی امید سستے لوگوں سے نہ رکھیں ۔ آپ کسی یونیورسٹی سے پڑھیں ہیں یا پڑھتے ہیں یا پڑھ چکے ہیں یقینا آپ سند گلے میں ڈال کر نہیں گھومیں گے لوگ آپ کے اخلاق سے آپ کی انسانیت کا اندازہ لگا لیں گے ۔ آج کل سیاست او سیاسی امور کی گہما گہمی ہے ایک ہی گھر کے آنگن میں ماں باپ بہن بھاٸی اولاد سبھی مختلف نظریات کے حامل ہیں ہر کسی کی اپنی پسندیدہ پارٹی ہے۔ ووٹ کوعزت دو ۔ووٹ
کی شان بڑھاو ۔ ان نعروں کو تو پوجا جا رہا ہے مگر گھر کے آنگن میں ایک دوسرے کوجاہل گنوار سمجھا جا رہا ہے ۔ پانچ سالوں میں ایک دفعہ ووٹ کی ایک پرچی کے لیے ماں باپ کو اولڈ اور پرانے خیالات کاجانا جا رہا ہے ۔ پرچی کی عزت نہیں ارے انسان کی عزت پہلے ہے ۔ کب سمجھو گے یہ ایلیٹ کلاس ایک گھڑے کی مچھلیاں ہیں ۔ ہم تو کیڑے مکوڑے ہیں ۔ ہمارے لیے سب سے پہلے ہمارا گھر ہمارے ماں باپ جن کی دن رات کی کماٸی نے ہمیں بڑا کیا شعور دیا ۔ جذبات دیے ۔ حق سچ سیکھایا مگر کیا ان جذبات کوہم نے شعور کی لگام دی ۔ نہیں دی ۔ یہی وجہ ہے ووٹ کے نام پر خاندان کے خاندان ایک دوسرے سے ناراض ۔بہن بھاٸی ایک دوسرے سے ناراض ۔ خدا را سنھبلو ۔سیاسی ووٹ جہاں مرضی دو جینے کا حق ہے جیو اور جینے دو ۔ مگر عزت میں کمی نا آنے دو ۔ ایک ہزار اختلاف کرو مگر ادب کے داٸرے میں رہ کر ۔ یہ زبان گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس میں ہڈی نہیں مگر اس کالگا زخم ناصرف گہرا زخم دیتا ہے بلکہ گہرا نشان بھی چھوڑ جاتا ہے ۔ لہذا میری درخواست ہے اپنے اپنے ہی ہوتےہیں اگر کسی ایکسیڈنٹ میں تمھاری ٹانگ ٹوٹ گٸی تو یہ ہی وہ لوگ ہوں گے جو تمھیں کھلاٸیں گے پلاٸیں گے علاج کرواٸیں گے کسی سیاست دان نے تمھارے گھر نہیں آنا ۔ آنکھوں پہ بندھی خوابوں کی پٹی کھولیے ۔ جن کے ساتھ زندگی گزارنی ہے ان کے بن کر رہیے ۔ جو سارا سال آپ کے ہیں ۔ ووٹ سے پہلے ایک دوسرے کو عزت دو اگرتم اپنوں کو عزت نہ دے پاۓ توبھول جانا کہ کوٸی اور جس کا رہہن سہن تم سے الگ جس کا کھانا پینا الگ وہ تمھیں عزت دیں گے ۔ سب سے پہلے گھر اور گھر والے بعد میں ووٹ ۔
ایک خاص جملہ ۔۔۔۔ آپ کسی کی راۓ سے اختلاف ضرور کریں مگر احترام میں کمی نا آۓ ۔ پہلے ہی معاشرے میں بہت نفرت عام ہے مزید نفرتیں مت پھیلاٸیں ۔ اگر ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی یہ تجاویزپسند آٸیں تو عمل بھی کریں اور دوسرے گروپس میں شٸیر بھی کریں ۔ جزاک اللہ ۔۔۔
نالج فارلرن پبلی کیشنز اسلام آباد ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]