ماں کی تلاش

….
اگرتربیت کرنےوالی عورت تربیت کرنا چھوڑ دے تو آئندہ نسلوں میں عورت فتنہ و فساد اور مرد ظالم اور سرکش ہی پیدا ہونگے.تربیت اولاد کے حوالہ سے ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی ایک رہنماء تحریر …پڑھیں اور شئیر کریں ……..
ایک مرتبہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بچپن میں دونوں بھائی کسی بات پراآپس میں  جھگڑ پڑے، جب معاملہ ماں کے سامنے پیش ہواتو ماں نے دونوں کی باتیں سننے کے بعد ایک کو بے قصور اور دوسرے کو قصوروار قرار دینے کے بجائے جو بات کہی وہ یقینا شَخصیت سازی کے باب میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ انہوں نے کہا میں یہ نہیں جاننا چاہتی کہ کس نے کس پر ظلم کیا ہے ، میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ اللہ تعالی جھگڑا کرنے والوں کو نا پسند کرتاہے ۔ تم دونوں نے آپس میں لڑ جھگڑ کر اللہ تعالی کو ناراض کردیا ہے، دونوں میری نظروں سے دور ہوجاؤﺅ جن سے اللہ ناراض ان سے میں بھی ناراض ۔یہ سن کر دونوں بھائیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، دونوں نے آپس میں صلح کرلی، اور ماں سے معافی مانگتے ہوے درخواست کی کہ اللہ تعالی سے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی جائے ۔(آج معاملہ آپ کے سامنے ہے ۔۔۔ مائیں کہتی ہیں ۔۔بیٹا اگر بدلہ نہ لیا تو مین تیری ماں نہیں )اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن و حسین کی ماں جی پہ قربان جاوں ۔۔کیا تربیت کی ۔۔یہاں بھی تو دیکھیں خدیجہ کی لاڈلی تھی سبحان اللہ )(میری کتاب حضرت فاطمۃ الزہرائ کی باتیں ضرور مطالعہ کریں)



ماں کی اسی تربیت کے نتیجہ میں حضرت حسن اؓور حسین ؓکی ایسی شَخصیت بنی کہ وہ تاریخ کے صفحات کا روشن باب بن گیے ۔حضرت حسن ؓاور حسین ؓجنہوں نے ایک نئی تاریخ بنائی‘ ان کی شَخصیت سازی میں بھی ان کی ماں حضرت فاطمہ ؓکا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔ وہ ہمیشہ اپنے بچوں کو رضائے الہی کی بنیاد پر ہر کام کرنے کی تاکید کیا کرتی تھیں …علامہ اقبال ؒکے نام سے کون واقف نہیں ، وہ اس صالح اور خدا ترس خاتون کے فرزند تھے جس کو اپنے شوہر کی کمائی مشتبہ لگی تو اس نے شوہر سے کمائی کا وہ ذریعہ چھوڑدینے کا مطالبہ کیا‘ کوئی دوسرا مشغلہ ہاتھ آنے سے پہلے اقبال پیدا ہوے تو ان کی پرورش کے لئےصالح ماں نے مشتبہ کمائی کے بجائے اپنے زیورات بیچ کر ایک گائے خریدی اور اس کا دودھ پلانا شروع کردیا۔ آج دنیا اسی بچہ کو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒکے نام سے جانتی ہے، جن کی شاعری نے مسلمانوں کو ایک نئی دینی بیداری عطا کی۔حقیقت یہی ہے کہ انسانیت نوازی میں ’’ماں‘‘ کا بہت بڑا کردار ہے در حقیقت اگر ’’مائیں ‘‘اپنے حقیقی کردار کو نبھائیں تو واقعی یہ دنیا جنت بن جائے ۔جنت ماں کے قدموں تلے ہے اگر ماں تربیت انسانیت میں بھرپور توجہ دے تو دنیا ہی جنت بن جائے۔معاشرے کے بگاڑ اور اصلاح کی محرک ماں ہے۔وہ بچوں کی بہترین معلمہ ہے۔پھولوں کے بغیرجس طرح ہر باغ بے رنگ و بو ہوتا ہے۔اسی طرح عمدہ پرورش اور تربیت کے بغیر ہر بچہ ناسمجھ اور گنوار رہتا ہے۔بچے پھولوں کی طرح نازک ،خوبصورت اور حساس ہوتے ہیں۔ان کی نگہداشت ،پرورش بھی اتنی ہی ضروری اور محنت طلب ہے جتنی کسی باغ کی دیکھ بھال اورآرائش۔ماں کی محنت،توجہ اور ایثار ان پھولوں میں رنگ بھرتا ہے۔اس طرح وہ دلکش اور کارآمد بنتے ہیں۔ نپولین نے کہا تھا۔تم مجھے اچھی مائیں دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔علامہ اقبال کا کہنا ہے:قوموں کی تاریخ اور ان کا ماضی و حال ان کی ماؤں کا فیض ہے۔آج ہمارے ملک کو اچھے سیاست داںاور لیڈروں کی نہیں اچھی مائوں کی ضرورت ہے جو اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بہترین تعلیم تربیت دے سکے ۔۔ماں کی گود انسان کی پہلی درس گاہ ہے۔ ماں کا جذبۂ ایمان جتنا زیادہ ہوگا یہ درس گا ہ اتنی ہی بلند معیار کی حامل ہو گی اور اس میں پلنے والے بچوں کی تربیت اتنی ہی عمدہ ہو گی۔اس بچے کو کیسے بہتر انسان بنایا جاسکتا ہے جس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھمادیا جاتا ہے ، پھر نہ اس کو نقصانات و فوائد کا بتایا جاتا ہے نہ نگرانی کی جاتی ہے،جس کے بٹن اور اسکرین بچے کو اس دنیا کا مشاہدہ کرواتی ہے جس میں شیطانی مزہ اور سرور کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ؟ وہ بچہ فیس بک جیسے وقت کا ضیاع کرنے والے پلیٹ فارم سے اپنے آپ کو کس طرح بچا سکتا ہے ، جس کے ابو اور امی ہروقت اس آلودگی میں آلودہ ہوتے ہیں ؟وہ بچہ کس طرح نمازی بن سکتا ہے ، جس نے کبھی بھی اپنے والد کو مسجد جاتے ہوئے اور امی کو مصلہ بچھاتے ہوئے نہیں دیکھا؟
اگر ماں ابتداسے اپنے بچوں کو کلمہ توحید کی لوری دے تو یقینا وہی کلمہ ان کے دل و دماغ میں اتر جائے گا اور مستقبل میں تناور درخت کی شکل اختیار کرے گا ، اس کے بر خلاف اگر مائیں بچپن ہی سے اپنے بچوں کو غیر اسلامی باتیں سکھائیں یا بچوں کا اٹھنا بیٹھنا غلط قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوجائے تو وہی باتیں ان کے دل و دماغ پر مرتسم ہوں گی ، اور بچے ان ہی لوگوں کا اثر قبول کریں گے پھر ایسے بچوں سے مستقبل میں خیرکی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اسی لیے شیخ سعدی کوکہنا پڑا:
خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج
معمار جب پہلی اینٹ ( بنیاد ) کی ٹیڑھی رکھتا ہے تو اخیر تک دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے
یہی وجہ ہے کہ رسول ﷺنے بچوں کی حفاظت اور تربیت کا ذمہ دار ماں کو ٹھہراتے ہوے فرمایا عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی نگران کار ہے(بخاری)عورتیں اس ذمہ داری سے اسی وقت بخوبی عہدہ بر آ ہو سکتی ہےں جبکہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی پابند اور اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوں ، اس لئےکہ نیک اور صالح خاتون ہی راہ حق کے فدائیوں اور شیدائیوں کو تیار کر سکتی ہے۔شکریہ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی طرف سے ان ماوں کو سلام جو دن رات اپنے بچوں کے اخلاق سنوارکر انہیں انسان بنانے پر محنت کرتی ہیں.اور ان ماوں کو سیلوٹ جن کے بچے اسلام اور پاکستان کے لیے بڑا کام کرتے ہیں

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *