تحریر
محمد سلیم معاویہ
اسلام کے بنیادی ارکان میں سے حج وہ واحد رکن اور واحد فریضہ ہے جو پوری زندگی میں ایک بار فرض ہوتا ہے ،نماز دن میں پانچ بار فرض ہوتا ہے ، صحت مند انسان پر روزہ ہر سال فرض ہوتا ہے ،زکوہ صاحب نصاب پر ہر سال فرض ہوتا ہے ،لیکن حج صحت مند اور صاحب استطاعت پر عمر پھر میں ایک ہی بار فرض ہوتا ہے اور جب ایک مرتبہ حج فرض ادا کر لیتا ہے تو اسلام پر برقرار رہتے ہوئے اس پر دوبارہ حج فرض نہیں ہوتا، اگرچہ یہ شخص مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ،عرفات میں ہی موجود ہو مگر اس پر دوبارہ حج فرض نہیں ہوتا
کہا یہ جاتا ہیکہ دوسرے عبادات کی بنسبت حج میں زیادہ مشقت ہے کیونکہ گھر سے نکلنا پڑتا ہے ،سفر کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں ،لمبا سفر طے کرکے ان مقدس مقامات میں پہنچتا ہے ۔مخصوص ایام میں مخصوص مقامات پر حاضر ہو کر مخصوص عبادات کرنی پڑتی ہے
اس دوران قدم قدم مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہے
اسکی وجہ سے یہ بات مشہور ہے کہ حج مشکلات کا دوسرا نام ہے
اکثر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ حج جوانی میں ادا کرلینا بہتر ہے کیونکہ بڑھاپے میں جب انسان کمزور ہوتا ہے تو اس وقت دوران حج کمزور انسان حج کی مشقت پرداشت نہیں کر سکتا ہے الٹا دوسروں پر بوجھ بن جاتا ہے
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر حقیقت یہ ہیکہ حج میں بذات خود کوئی مشقت اور مشکلات نہیں ،بلکہ شریعت نے بہت آسان بنایا ہے مگر لوگ خود کم علمی ،جذبات کی شدت اور جلدبازی کی وجہ سے مشقت میں پڑتے ہیں اور مشکلات کا شکار ہوتے ہیں
حج کس پر فرض ہے ؟؟؟
حج صرف اس شخص پر فرض ہے جو مسلمان ہو،بالغ ہو،عاقل ہو ،آزاد ہو ،صاحب استطاعت و صاحب قدرت ہو، حج کا زمانہ ہو
صاحب استطاعت و صاحب قدرت ہو ھونے کا مطلب یہ ہے کہ ذاتی ضروریات کے علاوہ اس کے پاس اپنا ذاتی اتنا مال موجود ہو کہ وہ بآسانی حج کرکے واپس آسکے،اگر وہ اہل و عیال والا ہے تو جن لوگوں کا خرچ اسکے ذمہ ہے اسکے حج سے واپسی تک ان لوگوں کا خرچ بھی اسکے پاس موجود ہو ،جو وہ انہیں دیکر جائے
اسی طرح خواتین پر بھی حج کی اداگئ اس وقت فرض ہوتی ہے جب انکی ملکیت میں انکی اپنی ذاتی رقم اتنی ہو کہ جس سے وہ سفر حج کر سکیں اور محرم کا بھی انتظام ہو ۔اگر حج فرض ہو مگر محرم ساتھ نہ ہوتو جب تک محرم کا انتظام نہ ہو تب تک حج کی اداگی اس لازم نہیں ہاں اسے حج بدل کی وصیت کردینا چاہیے تاکہ اس کے زندگی میں محرم کا انتظام نہ ہوسکا تو اسکے دنیا سے جانے کے بعد کوئی اسکی جگہ حج بدل کرسکے
حج کے دوران فرائض کتنے ہیں ؟؟؟؟
حج میں جتنا وقت اور جتنی رقم خرچ ہوتی ہے وہ سب کے سامنے ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ احرام باندھنے کے بعد اس پر کوئی لمبے چوڑے کام لازم نہیں ہوتے ہیں
پورے حج میں صرف تین (3) چیزیں فرض ہوتی ہیں
ایک احرام ،دو وقوف عرفات ،تین طواف زیارت ۔بس یہ تین چیزیں فرض ہیں
حج کی سہولت کا اندازہ اس سے لگائیں
باقی جتنے کام ہیں یا تو واجب ہیں ،یا سنت مستحب ہیں باقی جو بھی کام ہے اسکا کوئی نہ کوئی بدل ضرور ہے جس سے اسکا تدارک ممکن ہے مگر یہ تین جو فرائض ہیں ۔احرام ۔وقوف عرفات اور طواف زیارت ان تین کا نہ تو کوئی بدل ہے اور نہ ہی تدارک کی کوئی صورت ہے
لہذا ہر حاجی کو چاہئے کہ وہ پہلی فرصت میں اپنی توجہ ان تین کاموں کی طرف رکھے تاکہ حج کے یہ فرائض ہر حال میں پورے ہوں
حج کا پہلا فرض احرام ہے
احرام کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب حج ،یا عمرہ کی نیت کرئے تو تلبیہ پڑھ کر حج یا عمرہ کا آغاز کرے ۔احرام حج و عمرہ کیلئے ایسا ہی ہے جیسے نماز کیلئے تکبیر تحرمہ ۔اور تلبیہ یہ ہے لبیک اللھم لبیک ۔لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمت لک والملک لا شریک لک۔ جس طرح تکبیر تحرمہ پڑھ کر نماز شروع کیا جاتا ہے اسی طرح تلبیہ پڑھ کر حج یا عمرہ کا آغاز کیا جاتا ہے ۔سب جب تکبیر تحرمہ کے بعد نماز کی ساری پابندیاں نمازی پر لازم ہوتی ہیں بعینہ اسی طرح تلبیہ پڑھ کر حج یا عمرہ کا آغاز کیا جاتا ہے تو اسکے لوازمات کی پابندی بھی ضروری ہوتی ہے مثلا مرد کیلئے سلا ہوا کپڑا پہننا اور سر ڈھانپنا ،مرد و عورت دونوں کیلئے چہرہ ڈھانپنا ،خوشبو لگانا ،بال کاٹنا ،ناخن کاٹنا وغیرہ یہ سب کام ممنوع ہوجاتے ہیں۔عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ احرام کا مطلب دو سفید چادریں ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے
احرام تو نیت کے ساتھ تلبیہ پڑھنے کا نام ہے اسلئے اگر کوئی شخص سفید چادریں تو باندھ لے مگر نیت کے ساتھ تلبیہ نہ پڑھے تو احرام شروع نہیں ہوگا
حج کا دوسرا رکن وقوف عرفات ہے
یہ حج کا سب سے اہم ترین رکن ہے اسلئے اسے رکن اعظم بھی کہا جاتاہے اور کہاجاتا کہ جو شخص احرام کی حالت میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو ایک لمحہ کیلئے بھی عرفات میں چلا گیا تو اس کا حج ہوجائیگا
وقت کی ابتدا
وقوف عرفات کا وقت نو ذی الحجہ کے وقت سے شروع ہوتا ہے لہذا کوئی شخص ظہر کا وقت شروع ہوتے ہی حج کی نیت سے احرام باندھا ہوا ہو اور عرفات کے میدان میں موجود ہو تو اسکا یہ فرض ادا ہوجاتا ہے
۔چاہے لیٹا ہو یا بیٹھا ہو گاڑی میں ہو یا پیدل سو رہا ہو یا جاگ رہا ہو ، بے ہوش ہو گیا ہو یا وہ صرف چند لمحے ہی عرفات کے میدان میں رہ سکا ہو اسکے بعد کسی مجبوری کی وجہ سے وہاں سے نکل گیا ہو ۔مگر اسکا وقوف عرفات ادا ہوجائیگا
وقت کی انتہا
ویسے تو وقوف عرفات کا افضل وقت نویں تاریخ کے زوال سے غروب شمس تک ہے لیکن جائز وقت نویں کی رات گزر کر دسویں کی صبح صادق تک ہے
اسی لئے اگر کسی کا جہاز لیٹ ہوجائے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے اس کو زوال سے غروب تک آنے کا موقع میسر نہ ہوا ہو تو وہ نویں اور دسویں کی درمیانی رات کے کسی بھی لمحہ حج کے احرام کے ساتھ میدان عرفات میں چلا گیا چاہے وہ ایک لمحہ ہی کیوں نہ ہو اسکا حج ادا ہو جائیگا
اور میدان عرفات میں جبل رحمت جانا شرعا کوئی ضروری نہیں ۔جہاں بآسانی جگہ میسر ہو وہاں بیٹھے کوئی مخصوص جگہ کا بھی تعین نہیں میدان عرفات میں جہاں بھی رہے اسکا فرض ادا ہوجائیگا
اسی طرح اس فرض میں شریعت نے یہ آسانی بھی رکھی ہےکہ اس میں پاک ہونا بھی ضروری نہیں اسی لئے اگر کوئی خاتون اپنے مخصوص ایام میں ہو یا حیض و نفاس کی وجہ سے قرآن مجید نہ پڑھ سکتی ہو تو بھی اسکے وقوف عرفات میں کوئی ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا اور وقوف عرفات کے وہ تمام فضائل اسکے لئے بھی ہیں جن کا دوسری خواتین یا مردوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔۔
حج کا تیسرا فرض طواف زیارت ہے
یہ مسجد حرام میں بیت اللہ کے گرد طواف کی نیت کے ساتھ سات چکر لگانے کا نام ہے ہے
وقت کی ابتدا
طواف زیارت کا وقت وقوف عرفات کا وقت ختم ہوتے ہی یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق ہوتے ہی شروع ہو جاتاہے
وقت کی انتہاء
طواف زیارت کا وقت کبھی ختم نہیں ہوتا مگر اسکی تھوڑی تفصیل ہے اسکا جاننا ضروری ہے
(1) طواف زیارت کا جائز وقت دسویں تاریخ کی صبح صادق سے لیکر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک ہے اس دوران دسویں کی صبح صادق سے لیکر گیارہ کا دن پورا اور بارہ کی شام غروب آفتاب تک اگر کسی نے طواف زیارت کرلیا تو اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا
(2)اگر کوئی خاتون ان ایام میں حالت حیض یا نفاس کی وجہ سے پاک نہ ہوسکی تو ان تین دنوں کےبعد جب بھی وہ پاک ہوجائیگی تو طواف زیارت ادا کریگی اور اس تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔ ہاں اگر کوئی خاتون بارہ کی عصر تک پاک ہوگئ تو اس پر لازم ہیکہ وہ اسی وقت غسل کرکے یہ طواف زیارت ادا کریے مغرب سے پہلے پہلے
(3)اگر کوئی شخص بغیر عذر کے ان تین دنوں میں طواف نہ کرے اور ان تین دنوں کے گزرجانے کے بعد کرے تو بغیر کسی عذر کے ایسا کرنا مکرہ تحریمی ہے جسکی وجہ سے اس پر دم (ایک دمنبہ یا بکرا) واجب ہوگا جس کا ادا کرنا ضروری ہے لیکن اسکا طواف زیارت ادا ہوجائیگا البتہ جب تک طواف زیارت ادا نہیں کرےگا تب تک اسکے لئے ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہوگا۔۔۔
طواف زیارت فرض اور لازمی ہے اسکا کوئی بدل نہیں وقوف عرفات کے بعد اپنی زندگی میں ادا کرنا ضروری ہے مگر ایک صورت میں استثناء حاصل ہے
وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقوف عرفات کے بعد فوت ہوجائے اور وصیت بھی کرے کہ میری طرف سے حج پورا کریں تو طواف زیارت کے بدلے اسکی طرف سے ایک گائیں یا ایک اونٹ ذبح کرنے سے اسکا حج ادا ہوجائیگا
کیونکہ اللہ کے نبی نے فرمایا جس نے وقوف عرفات کرلیا اسکا حج پورا ہوگیا ۔۔۔ اس ایک صورت کے علاوہ کے علاوہ طواف زیارت کا کوئی بدل نہیں ان تین دنوں میں ادا کیا تو کوئی دم لازم نہیں اور اگر تاخیر کیا تو دم لازم ہوگا مگر ج تک طواف زیارت ادا نہیں کرےگا تب تک اسکے لئے ازدواجی تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہوگا
طواف زیارت کی جگہ
طواف زیارت صرف مسجد حرام میں بیت اللہ کے گرد کیا جاسکتا ہے مسجد حرام سے باہر کیا ہوا طواف کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہوگا ۔مسجد حرام کی جتنی توسیع کی جائیگی اس سے اتنی آسانی ہوتی جائیگی اس سے طواف میں کوئی حرج نہیں ہوگا
شرط یہ ہے کہ مسجد حرام کے اندر ہو طواف
طواف زیارت میں دلی نیت کے ساتھ صرف طواف زیارت کرنا چاہے اگر کسی شخص نےطواف زیارت کے ان تین دنوں میں خاص طواف زیارت کی نیت نہیں کی تو بھی اسکا یہ فریضہ ادا ہوجائے گا
طواف زیارت میں کوئی مخصوص لباس کی بھی قید نہیں عام لباس میں بھی طواف زیارت ادا ہوجائیگا
طواف زیارت کے چند ضروری مسائل
طواف زیارت بلکہ ہر طواف کیلئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے
ناپاک ،جنبی،حائضہ وغیرہ نہ ہو باوضو ہو ۔بغیر وضو اور غسل کے طواف کرنا جائز نہیں ۔
لباس میں شرعی ستر کی حد پوری کی گئ ہو
جو شخص پیدل چلنے پر قدرت رکھتا ہو وہ پیدل طواف کرے
دئیں طرف سے طواف شروع کرے
طواف کرتے وقت حطیم کے اندر سے نہ جائے
سات چکر لگائے
طواف کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے طواف کرنے کے بعد یہ دو رکعت نماز واجب ہے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
حج بہت ہی آسان عمل ہے قسط 4
گزشتہ کے تین قسطوں میں یہ ذکر کیا تھا کہ حج کے تین فرائض ہیں ۔احرام ۔وقوف عرفات ۔طواف زیارت
انکی تھوڑی بہت تفصیل بھی ہوگئ
اب آتے ہیں حج کے واجبات کی طرف
حج کے چھ واجبات ہیں
ہر حاجی کو چاہے کہ وہ ان چھ واجبات کو سامنے رکھ کر اپنا حج ادا کرے تاکہ اس کا حج کامل اور سنت کے مطابق ادا ہوسکے
(1)مزدلفہ میں وقوف کرنا ۔یعنی مزدلفہ نامی مقام پر رکنا
(2)صفا اور مروا کے درمیان سعی کرنا یعنی چکر لگانا
(3)رمی جمار کرنا یعنی جمرات پر اپنے وقت میں کنکریاں مارنا
(4)حج قران اور حج تمتع کرنے والوں قربانی کرنا کیونکہ حج افراد کرنے والوں پر حج کی قربانی واجب نہیں
(5)حلق یاتقصیر کرنا یعنی اپنے وقت پر سر کے بال کاٹنا یا چھوٹے کرنا
(6)میقات کے مقام سے باہر آنے والوں کیلئے طواف و داع کرنا
واجب اور فرض میں فرق
واجب اور فرض میں یہ فرق ہےکہ فرائض میں سے کوئی فرض رہ جائے تو حج ادا نہیں ہوگا اور واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو حج ادا تو ہوگا مگر ناقص ہوگا
دوسرا فرق یہ ہے کہ حج کے فرائض کا کوئی بدل نہیں جیا کہ پہلے قسطوں میں تفصیل گزر چکی ہے
اور واجبات میں سے کوئی واجب رہ جائے تو اسکا بدل دم یا صدقہ سے ممکن ہے مطلب واجب کے ترک پر دم واجب ہوگا دم دینے سے واجب ادا ہوجائے گا
۔
اب ہم آتے ہیں حج کے دوران ہونے والی خرابیوں کی طرف
حج کے دوران دو قسم کے گناہ ہوتے ہیں عموما
ایک وہ گناہ جو حج کے علاوہ بھی گناہ ہے اور دوران حج بھی مگر حج کے دوران ان گناہوں کی سنگینی بڑھ جاتی ہے اس لئے ہر حاجی کو چاہئے کہہ وہ ان گناہوں سے خاص طور پر ان گناہوں سے ضرور بچے
دوسرے قسم کے وہ گناہ ہیں جو صرف دوران حج گناہ میں شمار کئے جاتے ہیں احرام باندھنے کے بعد ۔جبکہ احرام سے پہلے اور احرام کے کھلنے کے بعد وہ گناہ خام نہیں ہوتے کیونکہ یہ کام بذات خود جائز ہیں لیکن دوران حج ان سے روکا گیا ہے ،جیسے خوشبو لگانا ۔بال یا ناخن کاٹنا یا مردوں کو سلا ہوا کپڑا پہننا یہ کام بذات خود جائز ہیں لیکن دوران حج ان سے روکا گیا
حج کے گناہ
1 حرام مال سے حج نہ کرے چاہے وہ مال چوری کا ہو، کسی سے چھینا ہو ،غصب کیا ہو، کسی کا حق دبایا ہو، یا ورثاء کا مال ان سے چھینا ہو،رشوت۔سود یہ سب حرام مال میں شامل ہے
2 دوران حج اپنی نیت کو صاف رکھے اور خالص اللہ کی رضا کی نیت کرے کیونکہ دکھلاوے اور شہرت کی نیت ہو تو عبادت بےکار ہوجاتی ہے ثواب سے محرومی کا سبب بنتی ہے
3 اسی طرح فحش گوئی بدنظری ،غلط حرکات ،بے حیائی سے باز رہے حتی کہ اپنی بیوی سے بھی اس قسم کی گفتگو سے باز رہے
4 ہر قسم کے گناہوں سے خاص طور پر بچے
5 لڑائی جھگڑے سے بچے بحث و مباحثہ سے دور رہے
6 حقوق العباد میں کمی کوتاہی نہ کرے اور دوران حج گالم گلوچ کسی کی دل آزاری ایذارسانی سے بچے
دوسروں کی چیزیں استعمال نہ کرے اور جب اتنی قربانی دیکر گھر بار چھوڑ کر اتنی دور گیا ہے تو جلدبازی سے کام نہ لیں ہر کام آرام اطمنان سکون اور صبر و تحمل سے کریں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]