حفیظ چوہدری
جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو “پاکستان ” جنوبی ایشیا کے خوبصورت خطے میں واقع ہے۔جو ایشیا کے لیے ’’سنٹر ل یونٹ ‘‘کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے جنوب میں 1046کلو میٹر ساحلی پٹی ہے، جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔ یہاں سے پوری دنیا کے ساتھ تجارت کی جاسکتی ہے۔ اور ہم اپنا معاشی نظام بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے مشرق میں بھارت ، شمال مشرق میں چین، اور مغرب میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان قدرتی خوبصورتی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے انعام ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی اور ایشیا کی دوسری اور دنیا کی ساتویں مضبوط ’’ایٹمی طاقت ‘‘ ہے۔ اس لیے پاکستان کی اسلامی دنیا میں بہت اہمیت ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا میں اتحادو اتفاق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کا یوم آزادی اسلامی کلینڈر کے مطابق 27رمضان المبارک کو ہے۔ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے اس عظیم واقعہ سے ہے، جو”محمدی انقلاب”کی بنیاد بنی۔اس محمدی انقلاب کی وجہ سے عظیم ریاست “ریاست مدینہ ” قائم ہوئی ، جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔
پاکستان کے بہت سے ا ہل علم کی کوشش رہی ہے کہ”یوم آزادی”کے حوالے سے “ستائیس رمضان “کو بھی یاد رکھا جائے۔پروفیسر مرزا محمدمنور مرحوم نے اپنی کتاب “حصارِ پاکستان “کے صفحہ نمبر 194 میں لکھاکہ “لاکھ لاکھ شکر اس خدائے مہربان کا،جس نے اولاد آدم کی دائمی ہدایت کے لیے ” قرآن الفرقان” ماہ رمضان کی آخری متبرک راتوں میں سے ایک میں نازل کر نا شروع کیا،اسی طرح لاکھ لاکھ شکر اس خدائے رحمان کا، جس نے رمضان ہی کے ماہ مبارک کی آخری مقدس راتوں میں سے ایک میں امت مسلمہ کو “پاکستان”کی عظیم الشان نعمت غیر مترقبہ سے نوازا “۔کتنا ہی اچھا ہو ، ہم یوم آزادی کے حوالے سے 14 اگست کے ساتھ ساتھ ستائیس رمضان کو بھی یاد رکھیں۔
ساکنان مملکت خدا داد پاکستان کو ماہ آزادی مبارک ،غیرمنقسم ہندوستان پر چونکہ مسلمانوں نے عرصہ درازتک حکومت کی تھی اور انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا تھا ،لہٰذا وہ اکثریتی عناصر جو مسلمانوں سے دلی بغض رکھتے تھے ،جنہوں نے مسلمانوں کی حکمرانی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا تھا ۔انہیں کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا اور ان کے اعمال گواہی دینے لگے کہ وہ مسلمانوں کوکس قدر ناپسند کرتے ہیں ۔سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ حکمران انگریز نے بھی ہندوستان پر مستقل پنجے گاڑے رکھنے کیلئے ایسے عناصر کی ہمت افزائی شروع کردی اور مسلسل ایسے اقدامات اٹھانے شروع کردیئے جن سے مسلمانوں کی بیخ کنی ہو اور انہیں کبھی سراٹھانے کا موقع نصیب نہ ہوسکے ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شعبے میں نظرانداز کئے جانے کے سبب مسلمان احساس کمتری کی بیماری میںمبتلا ہونے لگے اور پھر ایسا وقت آگیا کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے طور پر سرسید احمد خان کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہندو اور مسلمان دوایسی قومیں ہیں جن میں کوئی قدر مشترک نہیں اور ان کا ایک ساتھ رہنا محال ہے ۔سرسید احمد خان کا یہ اعلان ،صرف اعلان ہی نہیں بلکہ وہ پہلاپتھر تھا جسے مملکت خداداد پاکستان کا سنگ بنیاد کہنا بے جا نہ ہوگا اور یقینایہیں سے دوقومی نظریے کی ابتداہوئی ،جو بعد میں قیام پاکستان کا سبب بنی ۔
دو قومی نظریہ درحقیقت اسلام کے عقائد اور اعمال کا نام ہے، مورخین کا کہنا ہے کہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، سر سید احمد خان، اور قائد اعظم کے ،کہ دو قومی نظریہ اسی دن وجود میں آ گیا تھا جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ میرے خیال سے تو دو قومی نظریہ حضرت انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی وجود میں آ گیا تھا، جب خالق کائنات نے ابلیس کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو اس ملعون کے انکار کے ساتھ ہی دو قومی نظریہ خیر اور شر کی شکل میں وجود میں آ گیا تھا، اسلام خیر ہی خیر ہے اور دائرہ اسلام کے باہر صرف شر ہی شر ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح خود بھی اس نظریاتی اساس کے پاسدار تھے وہ قرآن حکیم کو ہی پاکستان کا آئین اور قانون تصور کرتے تھے، علامہ محمداقبالؒ بھی صرف اسلامی نظام کے حوالے سے ہی مسلمانان ہند کی آزادی کے علمبردار تھے۔بانیان پاکستان کی سوچ اور ان کے اصولوں سے دوری پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے آزادی کی براکات سے محرومی کا باعث ہو سکتی ہے۔
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برصغیر پاک و ہند کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ سے فرمایاتھاکہ ’’مجھے اس طرف سے ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے آتے ہیں۔‘‘(مفہوم)اہل نظر بتاتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ ﷺنے قائداعظمؒ کو خواب میں زیارت سے نوازا اور حکم فرمایا کہ ’’اْٹھو!اور مسلمانوں کیلئے ایک الگ خطہ(پاکستان)بنانے کیلئے کام کرو۔” اور اسلام کا آخری غزوہ، غزوہ ہند بھی تو اسی دھرتی سے منسوب ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ آواز توانا ہوتی گئی اور پھر بالآخر اُس پیکر میں ڈھل گئی جسے لوگ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں ۔
’’قائد جب کھرے اور مخلصانہ کردار کا حامل ہوتو کیسے ممکن ہے کہ لوگ اس کا ساتھ نہ دیں !اور پھر زمانے کی آنکھ نے دیکھا کہ لوگ جو ق در جوق تحریک آزادی کے قافلے میں شامل ہوتے گئے اور محمد علی جناح کی کرشمہ انگریز قیادت نے نہ کسی کوپنجابی،سندھی اور گجراتی رہنے دیا اور نہ کسی کو بلوچی ،پٹھا ن یا بنگالی رہنے دیا ،بلکہ اس وقت پوری قوم ملت واحدہ میں ڈھل گئی ،جس کا ایک ہی مقصد تھا کہ قائد کی آواز سے آواز ملاکر اس منزل کو حاصل کیا جائے جو خواب مصورپاکستان علامہ محمد اقبالؒ، بانی پاکستان محمد علی جناح اور اکابرین دیوبند نے دیکھا تھا ‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ جو چیز ہونی ہے ہو کر رہتی ہے ،اپنی تاثیر اور خوبی کے ساتھ وقت ِ مقررہ پر…پاکستان کو قیام میں آنا تھا اور اسی دن آنا تھا چاہے کوئی کچھ بھی کرتا۔
شبِ قدر کو پاکستان کے قیام کی منطقی وجہ تو یہی سمجھی جاتی رہی ہے کہ پاکستان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص نظرِ کرم ہے ،بزرگانِ دین اور اولیائے اللہ پاکستان کے لیے دعاگو ہیں کہ برصغیر خاص مرکز تھا بزرگانِ دین اور اولیاء کرام کا مگر وجہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا ہر جگہ اور ہر وقت مددگار رہا ہے۔ مسلمانوں نے جب جب جہاں جہاں اور جس جس حال میں خدا کو پکارا ہے… اس پکار کا جواب کسی نہ کسی صورت میںضرور آیا۔ جلد یا بدیر کبھی کوئی اشارہ ملا تو کبھی کوئی وسیلہ بنا مگر مدد سے کبھی اللہ نے انکار نہ کیا۔
14اگست 1947 عیسوی 27 رمضان المبارک 1366 ہجری کو پاکستان کی آزادی حکم الہی اور شبِ قدر کے فضیلت والے دن کی برکت تھی… اس میں حصہ مسلمانوں کی ان دعاؤں کا تھا جن میں شدت برقرار رہی تھی، دل جذبوں سے پر تھے اور خلوص بھی بے پناہ پنہاں تھا۔ صرف پکار ہی پکار تھی، مدد کے لیے، رحم کے لیے، آسانی کے لیے… اس میں حصہ ان شہداء کا تھا جنہوں نے اپنی جان مسلمانوں کی حفاظت کے لیے دینے سے بھی دریغ نہ کیا، اللہ کی راہ میں خود کو قربان کرلیا۔ پاکستان ان کوششوں کا نتیجہ ہے جو مسلمان رہنماؤں نے کیں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اور پاکستان کو شب قدر کی بابرکت رات کو ہی ظہورمیں آنا تھا کہ جس دن کلام اللہ بذریعہ وحی ظاہر ہوا…کہ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا اور اس کے بغیر کچھ بھی نہیں…۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]